منگل، 4 جنوری، 2022

0 Comments


دوپٹہ 


رقاصہ سے شریفہ تک

ہمارے قدم اچانک ہی رک سے گئے, وجود ساقط پڑ گیا۔ ہر سانس کسی کوہِ آتش فشاں کے دھماکے کے مشابہ ہوئی اور دھڑکن تو گویا کسی رزم گاہ میں آناً فاناً دوڑتے گھوڑوں کی چاپ ہی ہوگئی۔ ہمارے دل کا سماں بدلنے والے بے پناہ جذبات کو محض ایک لمحے کا دورانیہ کافی تھا۔ ایک لمحے کے اس طویل دورانیے میں ہم مسلسل ساقط ہوئے کھڑے رہے ، گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی موقوف ہوگئی ہو۔
یوں تو ہرگز نہ تھا کہ ہم انھیں جانتے ہی نا تھے اور یوں بھی نا تھا کہ انھیں اچھے سے جانتے تھے۔ اس سے قبل بھی کئی بار ان سے آمنا سامنا ہو چکا تھا۔ مگر آج یوں اچانک ہی ایک عرصے بعد سامنے آنا اور بھری محفل میں ہمارا ہاتھ پکڑ لینا…….. بخدا ہمارے لئے ناقابل بیاں لمحہ تھا۔
وہ ایک حسیں سرد رات تھی جب ہم نے پہلی بار انھیں دیکھا۔ شہر کے رئیس زادے کی شادی کے موقع پر ہمیں مدعو کیا گیا تھا۔ وہ شاید ان رئیسون کے ہاں کام کرتے تھے۔ ہم ایک طرف شال اوڑھ کے بیٹھے تھے جب ان کی نظر ہم پر پڑی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ چونک سے گئے۔ ہم ان کے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت دیکھ سکتے تھے۔ ان کے اس طرح اچانک اور اتنی شدت سے بدلتے تاثرات کی وجہ سے ہم کہیں اور نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ وہ یوں دیکھ رہے تھے کہ مانو وہ ہمیں بہت پہلے سے جانتے ہوں, مانو وہ ہماری ہی تلاش میں تھے۔ اس تیز ٹھٹھرتی رات میں ان کے چہرے پر ہلکا سا پسینہ, ہم صاف صاف دیکھ سکتے تھے اور اتنے فاصلے کے باوجود بھی ہم ان کی تڑپ محسوس کر پا رہے تھے۔ ہم جیسوں کی زندگیوں میں جذبات کہاں ہوتے ہیں؟ اگر کوئی بھولے بھٹکے آبھی جائیں تو ہمیں ان کی عادت کہاں ہوتی ہے؟ ان کے لئے ہمارے دل جگہ نہیں بنا پاتے۔ ایسے میں اتنے شدیدجذبات, بخدا ہمارے لئے بہت پرتکلف ثابت ہوئے۔ چند ہی لمحوں بعد انہوں نے اپنی نظریں ہٹا لیں رخ پھیر گئے۔ مگر جلد ہی وہ پھر سے ہمیں دیکھنے لگے مگر پھر سے نظریں ہٹا لیں۔ کچھ ہی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا, پھر انھیں اپنے مالک کے حکم کی تکمیل کے لئے جانا پڑا, سو محفل شروع ہونے سے پہلے ہی نکل گئے۔ اس کے بعد محفل سجی, ہم نے شال اچھال پھینکی اور اپنے رقص سے محفل کو خوب جان بخشی۔ یہی تو ہمارا کام تھا، آخر کار ایک رقاصہ اسی لئے تو مدعو کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ کہیں دکھائی نہیں دیے۔
شادی کی رسمیں تمام ہونے تک, ہم نے اسی حویلی میں قیام کیا۔ روزانہ ان سے سامنا ہوتا، روزانہ ہمیں دیکھتے ہوئے وہ جذباتی ہوجاتے۔ روزانہ ہچکچاتے، ادھر ادھر دیکھتے مگر واپس مڑ کر ہماری طرف نگاہیں پھیر لیتے گویا وہ مجبور ہوجاتے ہمیں دیکھنے کو۔ ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اور ناہی ریاست بھر میں ہمارے دیوانوں کی کمی تھی۔ ہمارے لئے تو یہ قابلِ فخر بات تھی کہ مرد ہمارے دیوانے ہوں اور ہم پر مرمٹنے کو تیار ہوں مگر ہمیں جو چیز ستاتی تھی وہ ان کا رویہ تھا۔ کئی بار ہم نے انھیں آبدیدہ ہوتے دیکھا اور ہر بار ان کو کھوجاتے ہوئے دیکھا۔ایک بار ہم ہی نے پہل کر کے انھیں دور سے آداب کا اشارہ کیا۔ وہ شاید کھو چکے تھے۔ اچانک سے چونکے اور ہڑبڑا سے گئے ادھر ادھر دیکھنے لگے ، کبھی نیچے کبھی دائیں بائیں، کبھی ہماری جانب، پھر نیچے۔ آخر ہولے سے ہمیں دیکھا اور آہستہ سے آداب کہتے وہاں سے چلتے بنے۔اس دن زندگی میں پہلی بار جانا کہ شریف کیسے ہوتے ہیں؟ سب لوگ ہمیں دیکھ رہے تھے، ہمارے لئے تو فخر کی بات،مگر شاید ان کے لئے نہیں تھی۔ نجانے کیوں ہمیں لگا کہ وہ جاتے ہوئے لوگوں سے نظریں چرا رہے تھے۔
اس کے بعد وہ چند دن ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیے، آخری دن نظر آئے۔ جتنے آبدیدہ تھے اس سے کہیں زیادہ جذباتی۔ ہم واپس کو روانہ ہوئے ،ہماری امید کے برخلاف وہ ہمارے تانگے تک نہیں آئے۔
اس کے بعد ان سے کبھی سامنا نہیں ہوا اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہم انھیں بھلا پائے ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ہمیں ہماری بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ہماری سب سہیلیاں(طوائفیں) ہم پر ہنستی تھیں ، ڈانٹتی تھیں، سمجھاتی تھیں لیکن پر کچھ اثر نا ہوتا۔ دھیرے دھیرے ہمارا دل ہر مرد سے بیزار ہوتا جا رہا تھا اور کسی کے لئے رقص کرنے کو جی نہیں کرتا تھا۔ جی کرتا تھا کہ بس وہی ایک شخص ہمارے سامنے بیٹھا ہو اور ہم ان کے لئے آخری سانس تک رقص کرتی رہیں۔مگر پھر بھی یہ سب ہماری زندگی کا حصہ تھا، بے دلی سے بیزاری سے ہمیں کرنا ہوتا تھا۔
ہم اکثر اپنے رتجگوں میں سوچا کرتے تھے کہ ہمارا ان سے میل کیونکر ہو سکتاہے؟ پھر خود کو ہی ڈانٹتے کہ ” میل؟ کیا میل ؟ ہم کس میل کی بات کر رہے ہیں؟ ہم کوٹھے میں پیدا ہوئی پلی بڑھی طوائف ہیں۔ ہمارا ہر شب ایک نیا میل ہوتا ہے، ہمارا شرفاءسے کیا میل؟وہ بلا کے شریف انسان بھلا کبھی کسی کوٹھے کی جانب رخ کیوں کریں گے؟”
ہم تو وہ رقاصہ جس کے دیوانوں سے سارا جوناگڑھ بھرا پڑا تھا ،جس کی دھوم تمام چھوٹے بڑے رئیسوں سے لے کر ریاست کے نواب کے خاندان تک تھی،جو ریاست بھر سب سے مہنگی طوائف مشہور تھی۔ ریاست بھرمیں شاید ہی ایسا کوئی مے خانہ ہو جہاں کے مے کش ہر ہر گھونٹ پر ہمارا نام نا جبھتے ہوں اور شاید ہی ایسا کوئی مصور ہو جو ہماری تصویر بنانے سے محروم رہا ہو۔ یہی سب تو عروج ہوتا ہے ایک رقاصہ کا, ایک طوائف کا۔ایک طرف ہم ایک رقاصہ اپنے عروج پر تھے اور دوسری طرف ان کی شرافت اپنے عروج پر تھی۔ اس طرح پھر ان سے میل کیونکر ہو سکتا تھا؟
وقت تو خیر کبھی نہیں رکتا، وقت یہ بھی گزرتا گیا۔ بے قراری و کرب کی اذیتوں میں ہم دو ماہ کا عرصہ گزار گئے۔ جوناگڑھ کے نواب کے ہاں محفل تھی، ہر خاص و عام کے لئے دعوت عام تھی۔ ہم مصروف ِ رقص تھے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے درمیان سے وہ سامنے آئے ، جن کے ہم دو ماہ سے پاگلوں سے منتظر تھے۔ آج وہ گھڑی ملی تھی جس میں دل چاہتا تھا کہ ہم تمام زندگی جی لیں یا زندگی تمام کردیں۔ وہ گھڑی تو اب آئی تھی کہ ہم پورے دل سے رقص کریں، اور ہم نے وہی کیا۔ ہم ناچے، پورے دل سے ناچے، بے ساختہ ناچتے ناچتے ان کے قریب پہنچ گئے ، اتنا قریب کہ ان سے ٹکراجائیں۔ ہم اپنی مستی میں جھوم ہی رہے تھے کہ انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے ہمارا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔
ہمارے قدم اچانک ہی رک سے گئے, وجود ساقط پڑ گیا۔ ہر سانس کسی کوہِ آتش فشاں کے دھماکے کے مشابہ ہوئی اور دھڑکن تو گویا کسی رزم گاہ میں آناً فاناً دوڑتے گھوڑوں کی چاپ ہی ہوگئی۔ ہمارے دل کا سماں بدلنے والے بے پناہ جذبات کو محض ایک لمحے کا دورانیہ کافی تھا۔ ایک لمحے کے اس طویل دورانیے میں ہم مسلسل ساقط ہوئے کھڑے رہے ، گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی موقوف ہوگئی ہو۔
یوں تو ان کو لے کر ہزارو خواب سجائے تھے مگر آج یوں اچانک ہی ایک عرصے بعد سامنے آنا اور بھری محفل میں ہمارا ہاتھ پکڑ لینا…….. بخدا ہمارے لئے ناقابل بیاں لمحہ تھا۔
چند لمحوں بعد جب ہمارے اوسان لوٹے تو ہم نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا، مگر وہ مضبوطی سے پکڑے کھڑے تھے۔ ہم ان کے چہرے پر سختی واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ ہمیں لگا کہ مانو ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے، ہم نے بائیں ہاتھ سے تھپڑرسید کرنا چاہا مگر انہوں نے بایاں ہاتھ روک لیا اور گرفت مضبوط کر لی۔
“آپ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں ، ہم جانتے ہیں۔ ” آج پہلی بار ان کی آواز سنی ، ایک جذباتی سی آواز، ہم ٹھٹک کر رہ گئے۔ “مگر یہ دل اب مزید سہن نہیں کرسکتا۔ ہماری تڑپ نے کہیں نا کہیں آپ کو بھی تڑپایا ہے ہم جانتے ہیں، مگر اب مزید اسے لٹکائے نہیں رکھ سکتے۔” یہ کہتے ہوئے وہ ہماری چوڑیاں توڑنے لگے اور مسلسل توڑتے گئے مگر ہم تو جیسے اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔ “اب نہیں جانتے کہ ان سانسوں کا بوجھ مزید کتنا سہن کرسکتے ہیں۔ جو اندھیرا اب دکھائی دینے لگا ہے ،نہیں جانتے کہ اسے کل کا سورج مٹاپائے گا یا نہیں” ٹوٹتی چوڑیاں ہماری باہوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہتھیلیوں کو بھی چھلنی کرتی جا رہی تھیں، مگر اس کی پرواہ نا ہمیں ہوئی اور ناہی انھیں “ہمارے دل آپ کے لئے محبت بھلے ہی نا ہو، مگر اس چہرے سے نسبت کسی طور ختم نہیں ہوسکتی۔ ” وہ بلا توقف سب کہتے جا رہے تھے اور ہم بڑی حیرت سے سب سنتے جا رہے تھے۔ “یہ چہرہ ہماری دو سال سے مرحومہ بہن کاہے، جنہوں نے ہماری خاطر اپنی زندگی قربان کر دی۔ آپ ہوبہو ان کے جیسی دکھتی ہیں۔” یہ سنتے ہوئے ہمارا وجود لرز سا گیا اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے ہمارادایاں ہاتھ اوپر اٹھایا۔ ہم نے دیکھا کہ ہاتھ خون آلود ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ ہماری ہتھیلی کے اوپر لے جا کر زور سے مٹھی بند کی۔ ان کی مٹھی سے سارا خون رستاہوا ہماری ہتھیلی پر گرنے لگا۔ “اب آپ ہی ہماری بہن ہیں، ہماری نفیسہ ہیں۔ ہماری غیرت کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی بہن کا چہرہ کسی رقاصہ کا وجود ہو۔” یہ کہتے ہوئے وہ انہوں نے اپنے کُرتے سے ایک دوپٹہ نکالا، ہمیں اوڑھا دیااور گویا ہوئے “یہ ہماری نفیسہ کا دوپٹہ اور ہماری عزت ہے۔” پھر اچانک سے ایک قدم پیچھے ہوئے ، ہمیں دوپٹے کے ساتھ غور سے دیکھا اور رو دیے۔ پھر ایک قدم واپس قریب آئے ، نیل بہاتی آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے گویا ہوئے “ہماری عزت اب آپ کے سپرد ہے۔ اب آپ کی مرضی ، چاہیں تو اسے اچھال پھینکیں اور رقص کرتے قدموں تلے روند ڈالیں، یا پھر ہمارا مان رکھیں اور اس دوپٹے کو چادرِ حیا بنا کر اوڑھے رکھیں۔” یہ سب کہتے ہوئے وہ الٹے قدم پیچھے ہٹے اور ہلکا سا مڑ کر پیچھے کو دیکھا۔ تبھی دو جوان انھیں پکڑ کر لے گئے، جیسے کوئی قیدی کو پکڑ کر لے جاتا ہو۔
لوگوں کے ایک جمِ غفیر نے انھیں راستہ دیا، وہ روانہ ہوئے اور ہم انھیں دیکھتے رہے۔ کچھ دور جا کر وہ رکے، دائیں بائیں کے جوانوں نے چلتے رہنے کو دھکا دیا مگر وہ رکے رہے۔ مڑ کر ہمیں دیکھا۔ نیل بہاتی آنکھوں اور آنسؤں سے تر داڑھی سے ہلکا سے مسکرائے اور کہا :
“الوداع نفیسہ!” پھر واپس مڑے اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد ہم نے جانا کہ ہمارا بالکل تر ہو چکا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کتنا روئے۔ ہم کیا سوچتے رہ گئے ، وہ کیا چاہتے رہے۔ طوائف کو اتنی عز ت کون دیتا ہے؟ اگر دے بھی دے تو بہن کون بناتا ہے؟ یہ ہم پر ذمہ داری تھی یا احسان؟ اس سوال کا جواب ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔
کچھ دیر تو سب لوگ خاموش کھڑے ہمیں دیکھتے رہے پھر دھیرے دھیرے چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں۔ نواب صاحب کی جانب سے حکم آیا کہ محفل ددبارہ سے شروع کی جائے۔ موسیقار نے دھن چھیڑی، گلوکار نے سُر لگائی لیکن…….. بخدا ہم سے ایک قدم بھی نا اٹھایا گیا۔ وجود میں اتنی سکت بھی نا رہی کہ دوپٹہ اتار سکیں۔ ہم دھڑام سے وہیں گر گئے، پھوٹ پھوٹ کر رو دیے، ہاتھ جوڑ لئے اور سب سے معذرت کر لی لیکن رقص نا کرسکے۔
ایک بہن کیا ہوتی ہے؟ یہ سمجھنے میں ہمیں تھوڑا تو وقت لگنا ہی تھالیکن فی الفورجو سمجھ سکے وہ اتنا کہ اب یہ سب دھندا بند کر کے ایک عزت دار خاتون بننا ہے۔ اور یہ جوناگڑھ میں تو نا ممکن تھا۔
اب تواپنے کوٹھے میں بھی دم گھٹتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار خدا یاد آئے۔ دعا کی کہ اب تو ہی نکال اس قبر سے۔ اسی دن نواب صاحب کی نیک دل مہمان ہمارے کوٹھے پرآئی اور بتایا کہ انہوں نے تمام گفتگوکا بہت قریب مشاہدہ کیا ہے۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ اپنی ولائتی موٹر گاڑی میں اپنے گھر لکھنؤ لے آئیں، اور یوں مانو کہ ہمیں گود لے لیا۔
ایک بہن کی بہنیت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمیں سیکھنے میں دس سال لگ گئے۔ اور یہ دس سال کیسے گزرے معلوم ہی نہیں ہوا۔ آج دس سال بعد ہم جوناگڑھ اپنے بھائی سے ملنے آئے۔انھیں بتانے آئے کہ حسینہ اب نفیسہ بن چکی ہے۔ انھیں دکھانے آئے کہ جو دوپٹہ آپ نے دیا تھا ابھی تک ہمارے سر پر ہے، پرانا بھی نہیں ہوا، رنگ بھی نہیں اڑا، دھاگے بھی نہیں نکلے۔
مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ ایک طوائف سے تعلق رکھنے کے جرم میں ان کے سوتیلے بھائی انھیں سزائے موت کے نام پر آج سے دس سال پہلے ہی قتل کر چکے ہیں، ہمارے یہاں سے جانے سے ٹھیک دو دن بعد۔ان کا ہم تک آنا دراصل ان کی آخری خواہش کی تکمیل تھی۔
مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ آج سے بارہ سال پہلے نفیسہ کو بھی محلے والے حسینہ حسینہ کہہ کر رسوا کیا کرتے تھے اور جب چند اوباشوں نے نفیسہ کا دوپٹہ کھینچا یہ سمجھ کر کے یہ حسینہ ہے تو بھائی دفاع کرنے آئے۔ پھر بہن نے بھائی کو پڑنے والے خنجر کا نشانہ خود کو بنا لیا۔
یہاں آکر معلوم ہوا کہ ہمارے سر پر وہی دوپٹہ ہے جو نفیسہ کے سر سے کھینچا گیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭ختم شد٭٭٭٭٭٭٭٭

:بقلم
ؔشاہ آتش

جمعہ، 25 دسمبر، 2020

خلاباز (قسط نمبر 13)

0 Comments
قسط نمبر13......... ساغر کو یوں سنجیدہ دیکھ کر سکندر بھی فکر مند ہو اٹھا۔ کال ختم ہوئی, "کیا ہوا؟ کیا کہا ابو نے؟" سکندر پوچھنے لگا کچھ دیر تو ساغر بالکل خاموش بیٹھا رہا پھر بولا............."ابھی گھر جاؤ, میں تمہیں بتادوں گا" لہجے میں خاصی افسردگی اور رنجیدگی تھی "آخر ہوا کیا؟ دوست! کچھ تو بتاؤ" سکندر کی فکرمندی بڑھنے لگی "میں بتادوں گا تمہیں........ بتادوں گا, ابھی جاؤ۔ گھر جاؤ ابھی" لہجہ بالکل ایسا تھا, جیسے وہ سکندر کو تسلی دینا چاہتا ہو اس کے بعد سکندر نے بھی مزید اصرار نہیں کیا۔ بس بستہ سمیٹا اور اور جلدی سے گھر کو روانہ ہوگیا۔ تمام سفر وہ اسی سوچ میں مگن رہا کہ آخر بات کیا ہوئی ہے؟ آخر کیا وجہ رہی کہ ساغر کا چہرہ اس قدر سنجیدگی پکڑتا چلا گیا؟ یہ سب باتیں سوچ سوچ کر سکندر کے ذہن میں مختلف خیالات ابھرنے لگے۔ پھر یہ خدشہ کہ جو وہ سوچ رہا ہے وہ سب سچ نا ہو۔ خیر انہی سوچوں میں سارا سفر کٹ گیا اور سکندر اپنے گھر جا پہنچا۔ "السلام علیکم!" سکندر نے حسب معمول اند آتے ہی بولا, لہجہ سنجیدہ تھا جو سکندر کی والدہ نے بھی محسوس کیا "وعلیکم السلام!" والدہ رخسانہ نے جواب دیا "امی! ابو کہاں ہیں؟" سکندر نے مضطربانہ پوچھا "ابھی نہیں آئے کام سے..... کیوں خیریت ہے؟" سکندر اتنے میں رخسانہ بی بی کے پاس جا بیٹھا اور رخسانہ بی بی بھی اپنا کام چھوڑ کر سکندر کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ "وہ.... امی...... ابو کا فون آیا تھا ساغر کے پاس۔ اور میں وہیں تھا۔" سکندر کی آواز مزید مضطرب ہونے لگی تھی "تو کیا کہا تمہارے ابو نے؟" رخسانہ بی بی بھی سنجیدہ ہو گئی تھیں "یہی تو پتا نہیں ہے امی! ساغر چہرے سے بہت پریشان لگ رہا تھا۔ مجھے بس اتنا کہا کہ ابھی گھر جاؤ بعد میں بتاؤں گا........ امی! آپ بتائیں ناں کہ کیا ہوا ہے؟ ابو نے آپ سے کوئی بات تو کی ہوگی۔ امی بتائیں ناں کہ ابو نے کیا کہا آپ سے؟" "نہیں! جو بھی ہوگا ان ہی سے پوچھ لینا۔" رخسانہ بی بی ٹال مٹول کرنے لگی تھیں "امی! آپ ٹال رہی ہیں نا بات کو؟ مجھے پتا ہے, آپ جانتی ہیں کہ کیا بات ہوئی تھی۔ لیکن حرج ہی کیا ہے بتانے میں؟ آخر کار بتانا تو ہے ہی, تو ابھی صحیح۔" سکندر مضطربانہ رخسانہ بیگم کی منت کرتے ہوئے دلائل گھڑنے لگا "بیٹا!" ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا "تمہاری عمر دو سال تھی جب تمہارے چچا کی بیٹی نمرہ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی تمہارے چچا نے کہا تھا کہ وہ اس کی شادی تم سے کریں گے۔ اور تمہارے ابو نے بھی ہاں کر دی تھی۔ اس کے بعد اس معاملے پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ تو اب خود بتاؤ, شاہینہ کے ساتھ تمہارا نکاح کیسے کر سکتے ہیں؟" "امی! یہ تو بالکل نئی بات ہوگئی۔ آپ نے کبھی اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اور نا ہی میری مرضی شامل ہے اس میں۔" پوری طرح بوکھلاہٹ کا شکار سکندر یہ بھی نا طے کر پا رہا تھا کہ اس بات پر رد عمل کس قسم کا دینا چاہئیے۔ "ذکر کیسے کرتے؟ اس دن ایک بار بات کی تھی, پھر کبھی اس موضوع پر بات کی ہی نہیں گئی۔ جب تک تم بڑے ہوئے, ہم یہ سب بھول چکے تھے۔ وہ تو تمہارے ابو تمہارے چچا کے پاس اس رشتہ کے بارے میں مشورہ لینے گئے تھے۔ وہیں تمہارے چچا ناراض ہونے لگے کہ تم نے تو میرے ساتھ زبان کی تھی اور اب دوسری جگہ بات چلا رہے ہو۔" "تو پھر کیا ابو نے ان سے کہا نہیں کہ میرا بیٹا یہی چاہتا ہے؟" "کہا تھا بیٹا! لیکن تمہارے چچا ہیں کسی سننے والے؟" "لیکن کچھ تو منت کی ہوتی..... آخر بھائی تھے ان کے۔" سکندر حواس باختہ ہوا جا رہا تھا " تم کیا چاہتے ہو؟ تمہارے ابو تمہارے لئے دوسروں کے پاؤں پکڑتے پھریں۔"رخسانہ بی بی غرائیں "باپ کی یہی لاج رکھنی ہے تم نے؟ بیٹے ہو بیٹے رہو, باپ نا بنو۔" اس تنقید کے بعد رخسانہ بی بی خاموش ہوگئیں۔ سکندر کے چہرے پر بھی ندامت کے تاثرات نمایاں تھے۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد رخسانہ بی بی کہنے لگیں, "ویسے......... تمہیں کیا لگتا ہے, تمہارے ابو نے تمہارے لئے کچھ نا کیا ہوگا؟ خوب منت کی تھی انہوں نے۔ لیکن کیا ہوسکتا تھا؟" اب لہجہ قدرے نرم اور مایوسانہ تھا "کیا ہوسکتا تھا, کیا مطلب؟ کیا چچا نے اپنے بھائی کی ذرا بھی لاج نہیں رکھی؟ "لاج کیا رکھنی تھی وہ الٹا کہنے لگے کہ ہماری زبان بہت پہلے ہی ہو چکی ہے۔ اب اگر زبان سے پھرنا مقصود ہے تو پھر جاؤ لیکن آخرت میں جواب دہی تمہیں لازماً کرنا ہوگی............. تمہارے ابو تو اپنے بھائی سے مشورہ لینے گئے تھے, الٹا آخرت کی فکر لے کر گھر لوٹنا پڑا۔" یہ کہتے ہوئے رخسانہ بی بی کا ٹھنڈا سانس نکل گیا۔ اور اچانک سے ایک بار پھر خاموشی چھا گئی "نجانے چچا جان کو کب احساس ہوگا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ضدی ہیں" خاموش بیٹھا سکندر اچانک سے بولنے لگا۔ لہجے میں حد درجہ مایوسی ظاہر ہوتی تھی۔ "ایک لحاظ سے تو وہ بھی سچے ہیں بیٹا! پہلے جب رشتے کی بات ہوئی تھی تو تمہارے ابو نے حامی بھری تھی نا." "مطلب........ اب کوئی راستہ نہیں؟" اس سوال کا جواب رخسانہ بیگم کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ سکندر امیدِ جواب میں کچھ دیر ماں کے چہرے کو تکتا رہا پھر چہرے پر مایوسی لئے کمرے میں چلا گیا۔ سر جھکائے بیٹھی رخسانہ بیگم یہ بھی نا دیکھ سکی کہ سکندر کی آنکھیں لبریز ہوچکی ہیں۔ کمرے میں رکھی ایک کرسی پر سکندر بالکل خاموش بیٹھ رہا۔ چہرے سے غم و اداسی تو جھلک رہی تھی لیکن وہ لبریز آنکھیں اب خشک ہوچکی تھیں, جیسے وجود پر کوئی سکتہ طاری ہوچکا ہو۔ اسی کرب کے عالم میں مغرب کی آذان سنائی دینے لگی۔ ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے سکندر اٹھا اور مسجد چلا گیا۔ نماز کا سارا دورانیہ سکندر اسی کیفیت میں مبتلا رہا. دعا مانگتے وقت سکندر کے پاس مانگنے کو بہت کچھ تھا لیکن........ وہ ہاتھ اٹھا آسمان کی طرف دیکھتا رہا دل و دماغ نے ایک سوال بھی نا کیا‍۔ ادھر ساغر بھی پریشان تھا۔ ابھی یہ بات شاہینہ کو بھی بتانا باقی تھی۔ وہ بے چاری اب بھی شکرانے کے نوافل ادا کر رہی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد سکندر گھر آیا اور پہلے کی طرح اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ دیر تک اسی طرح بیٹھے سکندر کی یادوں میں گم رہا۔ سکندر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے لیکن بے بس سکندر کے بس میں اتنا بھی نا تھا کہ وہ اپنے ضبط کو توڑ کر ایک قطرہ ہی آنسو کا بہا سکے۔ "السلام علیکم! سکندر!" اچانک بشیر صاحب کی آواز نے سکندر کو چونکا دیا۔ "جی ابو!" سکندر فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ "کیا کر رہے ہو؟" بشیر صاحب پوچھنے لگے۔ "کچھ نہیں! بس ایسے ہی بیٹھا تھا" سکندر کی آواز بتا رہی تھی کہ سکندر ڈوب رہا ہے۔ بشیر صاحب بھی اس کی حالت کا اندازہ لگا چکے تھے۔ "نماز پڑھ لی عشا کی؟" بشیر صاحب پھر پوچھنے لگے۔ "نہیں! ابھی تو دیر ہے نا......." سکندر نے اندازہ لگانے والے لہجے میں کہا اور آواز آہستہ آہستہ مدہم ہوتی گئی جیسے اس کا اندازہ غلط ثابت ہو رہا ہو۔ تبھی سکندر نے گھڑی کی جانب دیکھا جو دس بج کے تیرہ منٹ کا وقت بتا رہی تھی۔ "یہ......... تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟" بشیر صاحب کچھ فاصلے پر میز کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے, جس پر سکندر کے لئے کھانا رکھا ہوا تھا۔ اور سکندر کو یہ معلوم ہی نا تھا کہ یہ کھانا کس وقت سے یہیں رکھا ہے۔ سکندر بھی ایسے تاثر دینے لگا جیسے اس کے بھلکڑ پن کی وجہ سے کوئی بہت بڑا نقصان ہوگیا ہو۔ "تم اتنے لاپرواہ تو نہیں تھے۔" "ابو........ وہ........ بس....... پتہ........" سکندر سے کوئی بہانہ نہیں بن پا رہا تھا۔ "کیا بات ہے سکندر؟ کیوں پریشان ہو؟" بشیر صاحب کا لہجہ اچانک سے ہمدردانہ ہوگیا۔ "ادھر آؤ ادھر بیٹھو!" بازو سے پکڑتے ہوئے "میرے پاس بیٹھو!" اپنے قریب پلنگ پر بٹھا دیا "اب بتاؤ کیوں پریشان ہو؟" "کچھ نہیں" سکندر نے منہ نیچے کر لیا۔ "تم پریشان ہو, ورنہ آج سے پہلے تم نے کبھی بھء رزق کو ایسے انتظار نہیں کرایا۔" "نہیں... کچھ نہیں ہے۔ میں ٹھیک ہوں........... ا..ا.. آپ پریشان نا ہوں۔" سکندر کی آواز ڈوبتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ "تمہاری امی نے تمہیں بتایا ہے نا تمہارے رشتے کے بارے میں؟ اسی لئے پریشان ہو؟" یہ سنتے ہی سکندر نے اچانک سے بشیر صاحب کی جانب دیکھا "نہیں!........ میں ٹھیک ہوں۔" یہ کہتے ہوئے سکندر کی آنکھیں بھر آئیں "تم رو رہے ہو؟" بشیر صاحب نہایت ہی حیرت زدہ ہوئے "سکندر! یہ کیا کر بیٹھے ہو؟" "پتا نہیں ابو! لیکن یہ سب برداشت سے باہر ہے۔" یہ کہتے ہوئے سکندر کی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسو کا بہہ نکلا اور تھوڑی پھڑکنے لگی بشیر صاحب کچھ دیر سکندر کو تکتے رہے پھر ٹھنڈا سانس لیا اور کہنے لگے "یہ دنیا ہے بیٹا! اتنا لگاؤ اچھا نہیں ہے.......... خیر! میں کل پھر سے جاؤں گا شبیر سے بات کرنے, تم پریشان........." "نہیں نہیں ابو! میں پریشان نہیں ہوں۔" بشیر صاحب کی بات کاٹتے ہوئے سکندر نے فوراً اپنے آنسو پونچھ لئے "مم...مم.... میں..... میں خوش ہوں۔ آپ کسی کی منت سماجت نا کریں۔" سکندر نظریں جھکائے کچھ تیزی سے بول رہا تھا۔ "کیسی باتیں کر رہے ہو؟ جیسے میں کوئی غیر ہوں۔ اپنے بیٹے کو اس کی خوشی نا دے سکوں تو میں باپ کیسا؟" "ابو! میں آپ کا سکون بننا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے آپ کا سر جھک جائے اور میرا شمار بری اولاد میں ہونے لگے۔ ابو! آپ خود ہی کہتے ہیں نا, کہ انسان کی جان, مال اور اولاد اس کی آزمائش ہوتی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے والد ہر آزمائش میں رہ جائیں۔" بشیر صاحب تشکرانہ انداز میں سکندر کی جانب دیکھنے لگے۔ "میں کتنا خوش نصیب ہوں۔" تھوڑا توقف کیا "سکندر! میری دل سے دعا ہے کہ اللہ دنیا کی تمام خوشیاں تمہارے مقدر میں لکھ دے۔" دعا سن کر سکندر کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکان آئی اور پھر وہ کہنے لگا, "آپ دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے صبر عطا فرمائے!" یہ کہتے ہوئے سکندر کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔ اب کی بار تو بشیر صاحب بھی خود کو نا روک پائے۔ انہوں نے جھٹ سے سکندر کو سینے سے لگایا اور ان کی لبریز آنکھیں اشک پینے کی کوشش کرنے لگیں۔ ادھر شاہینہ کے کمرے میں ساغر داخل ہوا۔ سلام کرنے کے بعد قریب بیٹھ گیا۔ چند ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اصل مدعے کی جانب آیا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ سنائی۔ ساغر شاہینہ کے بدلتے رنگ دیکھتا رہا اور سارا واقعہ سناتا رہا۔ شاہینہ سر جھکائے خاموشی سے آخر تک سنتی رہی ایک بار بھی نہ بولی۔ "اللہ نے تمہارے لئے شاید کچھ بہت بہترین لکھا ہے۔ تم بس پریشان مت ہونا, کسی قسم کی فکر نہیں کرنی۔" ساغر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے آخری الفاظ کہے "نہیں ابو! میں کیوں پریشان ہونے لگی۔ میں آپ کے ہر فیصلے پر راضی ہوں۔" شاہینہ چہرے پر مسکراہٹ لائے بول رہی تھی لیکن ایک والد کے لئے حقیقی اور مصنوعی مسکراہٹ کے درمیان فرق کرنا شاید سانس لینے سے زیادہ آسان تھا۔ "اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے۔" یہ کہتے ساغر نے شاہینہ کے سر پر دست شفقت رکھا اور ماتھے پر پیار دیا۔" "ٹھیک ہے, تم اب سو جاؤ۔" ساغر اٹھ کر وہاں سے چلا تو آیا لیکن اس کا دل شاہینہ کی پریشانی کو لے کر بہت غمزدہ تھا۔ شاید اسی لئے وہ کچھ دیر تک اس کمرے کے دروازے پر رکا شاہینہ کو دیکھتا رہا۔ اپنے والد کو حال دل سناتے ہوئے گلے لگنے سے سکندر کا ضبط کچھ ٹوٹ تو گیا تھا, چند بوند آنسو بہانے سے دل کا بوجھ اتر تو گیا تھا لیکن وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے کی طلب.......... وہ طلب سکندر کو اندر سے کھا رہی تھی۔ شاہینہ سے نکاح نا کرنے کا فیصلہ اب سکندر کا اپنا تھا, سکندر کی اپنی رضا تھی۔ اسی لئے اب نا تو کسی کے سامنے کسی قسم کا کوئی شکوہ کر سکتا تھا اور نا ہی حال دل سنا سکتا تھا۔ فقط ایک جملہ ادا کر کے سکندر اپنے درد کا اکلوتا شریک بن چکا تھا۔ انہی قسم کی سوچوں اور ماضی و مستقبل کی کشمکش میں الجھا نجانے کتنی دیر وہ اپنے پلنگ پر لیٹا جاگتا رہا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے ابھی تک عشاء نہیں پڑھی۔ جلدی سے اٹھا اور وضو کر آیا۔ جائے نماز بچھائی اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد بے حس سا جائے نماز پر نجانے کتنی دیر کھویا کھویا سا بیٹھا رہا۔ پھر گھڑی پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ چار بج کے تینتیس منٹ ہوچکے ہیں۔ سو چند نوافل تہجد کے بھی ادا کر لئے, مگر دل ابھی بھی بے چین........ جی تو کر رہا تھا کہ سجدے میں گر جائے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے لیکن ضبط غلبہ پکڑ چکا تھا۔ آخر دعا کے لئے زبردستی ہاتھ اٹھا لئے, لیکن دعا ندارد۔ دل کسی گُپ اندھیرے میں ڈوبتا جا رہا تھا اور دماغ میں صرف ایک ہی سوچ چل رہی تھی, وہ یہ کہ مجھے کچھ سوجھ کیوں نہیں رہا۔ آخر وہ سجدے میں گر گیا, اور زبردستی رونے لگا, خدا کو اس کے مقدس ناموں سے پکارنے لگا۔ آنسوؤں کا گچھا بھی شاید کہیں ڈوب چکا تھا۔ ضبط شاید پورے وجود پر حاوی ہوچکا تھا۔ سکندر زبردستی رونے کی کوشش کرتا رہا لیکن ایک بھی آنسو نا بہا سکا۔ باقی کی ساری رات یونہی سجدے میں گزرگئی اور پھر فجر کی آذان ہونے لگی............. جاری ہے........... بقلم خود *شاہ آتشؔ*

ہفتہ، 13 جون، 2020

خلاباز (قسط نمبر 12)

0 Comments




     قسط نمبر12.........




     سکندر بیٹھک کے دروازے (جو باہر کی طرف کھلتا تھا) پر آیا اور ساغر کو جاتا دیکھتا رہا. پھر دروازہ بند کیا, ٹھنڈی سانس لی اور دھڑام سے پلنگ پر جا لیٹا اور آنکھیں بند کئے اللہ کا شکر ادا کرنے لگا...............
     ادھر شاہینہ اپنی زندگی کے سب سے بہترین دن گزار رہی تھی. اپنی خوشیاں اور غم اپنے ہم راز تک منتقل کرنا تو ایک فطری عمل ہے, اور اسی فطرت پر مامور شاہینہ اپنی ہم راز اور بہترین سہیلی اپنی ڈائری تک اپنے احوال منتقل کرہی تھی. موتیوں جیسی چمکتی آنکھوں میں خوشیاں لشکارے مارتی دکھائ دے رہی تھیں. ہر لفظ پر ہونٹوں پر اک نئ مسکان پھیل جاتی. اور ہاتھ, نہایت ہی شائستگی سے دل کے احوال ڈائیری کو سنا رہے تھے:
     "میری پیاری ڈائیری!
     میں آج بہت خوش ہوں, آئ ایم ویری ویری ہیپی. پتا ہے پاپا سکندر کے لئے مان گئے ہیں, مان گئے کیا....... ان کی خود کی خواہش تھی سکندر کے بارے میں. یہ بات میں سب سے پہلے تمہیں بتا رہی ہوں کیونکہ تم میری بیسٹ فرینڈ ہو. اگر ماما ہوتیں تو سب سے پہلے میں انہیں بتاتی, اوہ! میں کیا بتاتی وہ ہی مجھے بتاتی, میں بھی نا.... پکی سٹوپڈ ہوں.
     پتا ہے جنہیں آس پاس پا کر میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی, انہیں نے ہی مجھے غنڈوں سے محفوظ رکھا. پتا ہے پاپا کے بعد وہی میرے سپر ہیرو ہیں.
     میں اب ہر قدم پر ان کا ساتھ دینا چاہتی ہوں, اور اپنی انا کو درمیان سے نکال پھینکنا چاہتی ہوں. میں جانتی ہوں کہ وہ میری عزت نفس کی حفاظت کریں گے, لیکن میں اپنے وجود کو روند کر, اپنی انا کو مٹا کر ان کو خوش رکھنا چاہتی ہوں.
     اور پتا ہے مجھے یقین ہے میں ایسا ہی کروں گی......... ہر حال میں کروں گی........."
      "شاہینہ!"  اچانک سے ساغر کی آواز سنائ دی
     شاہینہ نے چونک کر دیکھا, وہ کمرے میں نہیں آۓ تھے, آنگن میں ٹھہرے تھے. فوراً ڈائیری بند کی, "آئ پاپا" اونچا بولی, پھر لپک کر ایک طرف گئ, کانپتے ہاتھوں سے ڈائیری کو صندوقچہ میں رکھا اور ساغر کی بات سننے باہر چلی گئ.
     اگلا دن شروع ہوا, آج سکندر اپنے کالج میں حاضر تھا, کلاس سے پہلے صحن میں بیٹھے زیر مطالعہ تھا. تھوڑی تھوڑی دیر بعد نظریں اٹھاتا صدردروازے کی جانب دیکھنے لگتا, کچھ دیر مسلسل تکنے کے بعد نظریں پھر سے کتاب کے الفاظ ٹٹولنے لگتیں, مگر جلد ہی پھر سے ان آنے جانے والے لوگوں میں الجھ جاتیں. جیسے وہ بڑی بے تابی سے کسی کی راہ تک رہا ہو. اتنے میں ارشد آتا ہوا دکھائ دیا, دھیرے دھیرے باقی سب دوست بھی آنے لگے. سب اس کے متعلق پوچھ رہے تھے. ارد گرد جمگھٹا بناۓ دوستوں سے سکندر پریشان ہونے لگا. کوئ سر کے زخموں کا پوچھتا تو کوئ اس کا زخمی ہاتھ تھام لیتا. یاسر نے اس کی حالت کو بھانپ لیا اور تمام دوستوں کو بکھر جانے کا کہنے لگا. دوستوں کے بکھرتے ہی سکندر کی نظر پھر دروازے کی جانب دوڑ گئ, پھر ادھر ادھر بھٹکنے لگیں, آخر مایوس ہوکر دوبارہ اسی کتاب میں آ گریں.
     کلاس کا وقت شروع ہوا, پروفیسر کلاس میں آۓ, بچوں کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا, سب بیٹھ رہے تو استاد کی نظر سکندر پر جاپڑی. سکندر سے حال احوال پوچھ کر بیٹھنے کو کہہ دیا. سکندر بیٹھ تو گیا لیکن وقفوں وقفوں بعد دروازے کی جانب نظر اٹھا کر دیکھ لیتا.
     اتنے میں شاہینہ اندر آتی دکھائ دی. سکندر کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی. وہ سر اٹھاۓ, گردن لمبی کئے شاہینہ کو دیکھنے لگا.
     اجازت لے کر شاہینہ اندر آئ, پروفیسر صاحب نے اس سے بھی صحت اور حالات کا پوچھا پھر وہ اپنی نشست پر بیٹھ رہی. اور تمام لڑکیاں ارد گرد اسے گھیرنے لگیں.
     بریک ہوئ..... سکندر دوستوں سے ہٹ کر ایک طرف جا بیٹھا, شاہینہ بھی بڑی مشکل سے سہیلیوں سے جان چھڑا کر وہیں سکندر کے پاس آگئی اور کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی.
     "السلام علیکم!" شاہینہ نے آتے ہی, مخاطب کیا, پھر تھوڑا فاصلے پر ایک کرسی پر بیٹھ گئ.
     "وعلیکم السلام!" سکندر نے طمانیت بھرا جواب دیا, "کیسی ہو شاہینہ؟" وہ پھر بولا
     "بالکل ٹھیک ہوں." تھوڑا توقف کیا, "اور آپ؟"
     "میں بھی ٹھیک ہوں. تم دیکھ ہی رہی ہو میرے زخم" اپنے سر کی چوٹوں کی طرف اشارہ کر دیا. پھر ہاتھ کا زخم دکھایا, "یہ دیکھو یہ بھی خشک ہو چکا ہے. میرے زخم بہت تیزی سے بھر رہے ہیں"
     "چلو شکر ہے خدا کا" وہ باآواز بلند بڑبڑائی
     "ہاں! الحمداللہ" تھوڑی دیر کے لئے بالکل خاموشی چھاگئی, پھر سکندر بولا, "ویسے....... کل تمہارے پاپا آۓ تھے, مجھ سے ملنے"
     یہ سنتے ہی شاہینہ کی آنکھیں پھیل گئیں اور لہجہ پرتجسس معلوم ہوتا تھا, "کیا کہا انہوں نے؟"
     "طبیعت کے متعلق پوچھنے آۓ تھے"
     "بس طبیعت کے متعلق ہی پوچھا؟" شاہینہ کو یوں لگا جیسے اس کی امیدوں پر پانی پھرنے لگا ہو
     "نہیں اور بھی بہت ساری باتیں کی. بہت اعلی انسان ہیں. ماشاءاللہ"
     "کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے پہلی بار ملاقات ہوئی ہو. مجھے پتا ہے آپ کے دوست ہیں وہ, انہوں نے بتایا مجھے. لیکن آپ نے نہیں بتایا." شاہینہ بگڑنے لگی
     "مجھے خود کو کہاں پتا تھا, اس دن میں ہکابکا رہ گیا تھا یہ جان کر" سکندر نے صفائی دے دی
     اس سے پہلے کہ شاہینہ کچھ بولتی, سکندر پھر بولا, "اچھا اب تمہیں جانا چاہیۓ. کافی دیر سے بیٹھی ہو. یہ اچھی بات نہیں"
     یہ سن کر شاہینہ اٹھی اور اپنی سہیلیوں سے جا ملی.
     چھٹی کے بعد سکند گھر جارہا تھا, راستے میں وہی گنے والا کھڑا دکھائی دیا. اسے دیکھتے ہی سکندر کو وہ منظر یاد آیا, جب اس نے اس غریب کے ٹھیلے سے گنا کھینچ کر ظاہر کو گرایا تھا. اس نے فوراً گنے والے کی طرف رخ کیا. موٹر سائیکل پارک کی اور اس شخص کی جانب بڑھ گیا.
     "السلام علیکم!" سکندر بولا
     "وعلیکم السلام! بیٹھو بیٹا! کون سا گلاس؟" وہ دوسرے گاہکوں کو گلاس تھماتے ہوۓ بولا
     "نہیں دراصل........ وہ....... کچھ دن پہلے میں یہاں سے گزرا تھا........."
     "ہاں آگے بولو بیٹا!" سکندر کی بات کو کاٹتے ہوۓ
      "نہیں........وہ.......اس وقت میں نے ایک گنا نکال لیا تھا, جب میں موٹرسائیکل پر ...... سواری کر رہا تھا" وہ ایسے بول رہا تھا جیسے اسے بات کرنے کے لئے الفاظ نا مل رہے ہوں
     "اچھا تو وہ تم تھے......" لہجہ سخت ہونے لگا
     "جی....... وہ میں......." اس کی بات کاٹ کر صفائی دینے لگا, "میں....... شرمندہ ہوں, معافی مانگنے آیا ہوں" سکندر کی ندامت سے نظریں جھک گئیں
     "پہلے چرا لیا, اب آۓ ہو معافی مانگنے. آخر چرایا ہی کیوں تھا" وہ بگڑنے لگا تھا
     "نہیں...... میں..... بھرپائی بھی کروں گا. اچھا...... یہ..... ایک منٹ" جیب سے کچھ پیسے نکالنے لگا. "ایک گنے سے بیس روپے والا گلاس بھر جاتا ہوگا نا......؟" بیس روپے تھما دئے, پھر اچانک کچھ یاد آیا, "نہیں.... شاید! زیادہ ہوتا ہوگا. شاید تیس والا گلاس" ہچکچاہٹ میں دس روپے اور بھی تھما دئے اور شکریہ ادا کر کے موٹر سائیکل کی جانب مڑا. چند قدم کے فاصلہ پر الٹا لوٹ آیا اور بولا, "میں نے چوری کی...... یہ جرمانہ کے بیس روپے....... باقی اتنے ہی ہیں میرے پاس" بیس روپے بھی اس کے ہاتھ میں تھما کر پھر بولا, "دیکھ لیں, مزید کوئ حساب کتاب ہو تو یہیں نپٹا لیں, آخرت میں میرے پاس جیب نہیں ہوگی."
     سکندر کے بات سن کر وہ شخص کچھ دیر کے لئے ششد رہ گیا, اور مسلسل وہیں کھڑا تکتا رہا. پھر اچانک بولا, " بیٹا! اسی دنیا کے ہونا تم؟" اتنی ایمانداری کہاں سے سیکھی؟"
     "اللہ سے" سکندر نے پرعقیدت ہو کر کہا
     "بیٹا! دل تو چاہتا ہے کہ یہ پیسے تمہیں واپس کر دوں, لیکن میں ان کاغذ کے ٹکڑوں ہمشہ اپنے سنبھال کر رکھوں گا, یہ میرے آخری وقت تک ثبوت رہے گا کہ اس دنیا میں اتنے ایماندار لوگ بھی ہیں" غریب جوس والے نے آنکھوں سے آنسو صاف کرنے کے بعد سکندر کے سر پر مشفقانہ ہاتھ رکھا, پھر نہایت ہی اصرار کر کے سکندر کو بٹھایا اور ایک گلاس محبت بھرا گنے کا جوس پلایا
     سکندر کو اس بوڑھے بھلے شخص سے جو محبت اور عزت ملی وہ اسے کبھی نا بھلا سکا, اور اس شخص کی محبت خاموشی سے جو سبق دے گئی وہ سکندر کی زندگی کے بہترین اسباق میں سے ایک تھا.
     شام کو سکندر ساغر کے پاس ٹیوشن پڑھنے جا بیٹھا. سکندر مسلسل اپنی پڑھائی میں مگن تھا اور ساغر متواتر سکندر کو دیکھے جارہا تھا. نجانے کن سوچوں میں گم ساغر کب تک ایسے بیٹھا رہا, پھر اچانک بولا, "بشیر صاحب سے بات ہوئی تھی میری"
     سکندر جو پڑھائی میں مگن تھا, یکدم ساغر کی طرف دیکھا, ساغر کا چہرہ سپاٹ تھا, "کیا کہا ابو نے؟" سکندر پر تجسس ہونے لگا تھا
     "زیادہ کچھ نہیں بس......" پانی کا گلاس بھرتے ہوۓ, "وقت مانگا کچھ......." گلاس سکندر کی جانب بڑھاتے ہوۓ, "پیو گے؟"
     "نہیں!" سکندر بولا, "لہجہ کیسا تھا ان کا؟" یہ کہہ کر سکندر, پانی پیتے ہوۓ ساغر کے جواب کا انتظار کرنے لگا
     "لہجہ........ سنجیدہ تھا. تھوڑا حیران بھی لگ رہے تھے." گلاس ایک جانب رکھتے ہوۓ, ایک لمبی سانس لی, "خیر! اچھی توقع ہے مجھے. اور اچھا ہی ہوگا سب کچھ."
     "ان شاءاللہ" سکندر بے ساختہ بولا
     "ان شاءاللہ" ساغر کی آواز بھی شامل ہوگئی
     "ایک بات کہوں دوست!" سکندر کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولا
     "ہاں بولو!" سکندر مزید سنجیدہ ہو گیا
     "اگر کسی وجہ سے ابو نا مانے تو......." سکندر کی پرنم آنکھیں خوف ظاہر کرنے لگی تھیں
     "ایسا کچھ نہیں ہوگا. اچھا سوچو اچھا ہی ہوگا." ساغر نے بات کاٹی
     "نہیں, میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ابو نا مانے تو" خدانخواستہ پر زور دیا, " مجھے ابو کی بات ماننی ہوگی.........." تھوڑا توقف کیا" تو وعدہ کرو گے تم یہ دوستی نہیں چھوڑو گے. یہ دوستی چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے. وعدہ کرو مجھ سے"
     "اچھا ٹھیک ہے, وعدہ رہا دوست!" ساغر نے دریادلی کے تاثر دیۓ
     "اور نکاح کے بعد یہ سسر والی بات بھی نہیں ہوگی, ہم پھر بھی دوست ہونگے, اس بات کا بھی وعدہ کرو." آنکھوں کے بھیگے کنارے صاف کرتے ہوۓ سکندر نٹ کھٹ انداز میں بولا
     "لو اس کا بھی وعدہ ہوگیا دوست! اب خوش ہو جاؤ."تھوڑا توقف کیا, "سچ بتاؤں تو مجھے بھی دوستی کسی حال میں بھی نہیں کھونی." ساغر بھی جذباتی ہونے لگا
      ابھی یہ باتیں چل رہی تھیں کہ ساغر کے فون کی گھنٹی بجی.
      "تمہارے ابو کا فون ہے" ساغر کھسپھسایا
     سکندر بھی پرتجسس ہو اٹھا.
     "ہلو!........ وعلیکم السلام!...... جی اللہ شکر ہے, آپ سنائیں......" ساغر بشریر صاحب کی کال سننے لگا. آہستہ آہستہ اس کا چہرہ سنجیدگی پکڑتا گیا. آخر میں تو ساغر بالکل خاموش ہی ہوگیا, اور چپ چاپ کال پر بات سنتا رہا.
     ساغر کو یوں سنجیدہ دیکھ کر سکندر بھی فکر مند ہو اٹھا.
     کال ختم ہوئی, "کیا ہوا؟ کیا کہا ابو نے؟" سکندر پوچھنے لگا
     کچھ دیر تو ساغر بالکل خاموش بیٹھا رہا پھر بولا.............

    


     جاری ہے...........


بقلم خود
شاہ آتش

بدھ، 3 جون، 2020

خلا باز (قسط نمبر 11)

0 Comments



قسط نمبر11......... 

         ساغر بھی اپنی بیٹی میں اس قدر حیا پر رشک کرنے لگا اور دیوار سے سر ٹیکے اس کی معصومیت کو دیکھے دبی دبی ہنسی ہنسنے لگا تھا................. دوسرے کمرے میں پہنچتے ہی شاہینہ صوفے پر دھڑام سے جا گری اور اپنے بازوؤں میں اپنے چہرے کو چھپاۓ شرماتے ہوۓ مسکراتی رہی. اور کافی دیر اسی حالت پڑی رہی. ساغر کو جب باہر جانا ہوا تو وہ ایک طرف گیا جہاں سے وہ شاہینہ کو دیکھ سکتا تھا لیکن شاہینہ اسے نہیں دیکھ سکتی تھی. کچھ دیر وہیں کھڑے وہ شاہینہ کو دیکھتا رہا. شاہینہ کی والدہ کی موت کے بعد وہ آج پہلی بار اتنی خوش لگ رہی تھی. شاہینہ کو اس قدر خوش دیکھتے ہوۓ ساغر اس کی خوشی میں اس قدر کھو گیا کہ اسے پتا ہی نا چلا کہ اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جھلک رہے ہیں. پھر جب واپس اپنے حواس میں آیا تو فوراً آنسو پونچھے اور باہر چلا گیا. ساغر کے دل پر آج ایک عجیب سا سکون طاری تھا. وہ باقی کا سارا دن شاہینہ کے اسی تصور میں ہی گزار بیٹھا. ادھر شاہینہ اپنے ہر کام کاج کے دوران خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نعت گنگناتی رہی اور اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے بڑے بڑے سپنے دیکھتی رہی. ادھر سکندر کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا. وہ جو بخار کا شکار ہو کہ بستر سے چسپاں ہو چکا تھا, بے ساختہ طور خوش ہونے لگا, جیسے اس کے دل میں خوشی امڈ رہی ہو. رفتہ رفتہ جب دل کے باغ باغ والے جذبات بڑھنے لگے تو وہ بے ساختہ ہنسنے لگا. اب تو بخار کا بھی کچھ پتا نا تھا, وہ بڑے آرام سے اٹھ بیٹھا. طبیعت کے ناسازی کی وجہ سے جو کھانا پینا چھوڑ چکا تھا......... اب بھوک ستانے لگی تھی. کھانا کھاتے وقت ہر لقمے پر اپنی والدہ سے ذائقے کی تعریف کرتا پھر کھانے کے دوران ہی بے ساختہ ہنس پڑتا. ایک بار تو قہقہہ نکل گیا, پھر ادھر ادھر دیکھا, شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا, پھر سنجیدہ ہو کر کھانا کھانے لگا. چند لقموں کے بعد ہی اپنے اس عمل پر خود ہی ہنس پڑا. گو کہ انتہائ خوش تھا وہ, اور وجہ اسے خود کو ہی معلوم نا تھی. اگلے دن دروازے کی گھنٹی بجی........ سکندر نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ساغر کو کھڑے پایا. ساغر کو دیکھنا ہی تھا کہ وہ پانی پانی ہو گیا. آج ساغر بھی بالکل خاموش کھڑا تھا. شاید اس کو بھی آج مشکل درپیش آ رہی تھی, سکندر سے روبرو ہونے میں. سکندر اول تو خاموش کھڑا رہا پھر ہمت کر کے کانپتے ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور ہلکی سی آواز میں السلام علیکم! کہا. ساغر کے بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے, اس کے ہاتھ تو نا کانپے تھے مگر وعلیکم السلام کی آواز اس کی بھی بےجان سی معلوم ہوتی تھی. "مم.... میں بیٹھک کھول کک.... کے آتا ہوں" کانپتی آواز کے ساتھ ابھی مکمل ہی نا ہو پائ تھی کہ سکندر اندر چلا گیا. "ہوں!" ساغر اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا. سکندر بیٹھک میں کچھ پل بیٹھا رہا اور اپنی اس کیفیت کو ختم کرنے لگا, پھر اٹھا اور دروازہ کھول دیا. ساغر بھی باہر کھڑے لمبی لمبی ٹھنڈی سانسیں لے کر خود کو معمول پر لانے لگا. اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ اندر چلا گیا. دونوں آمنے سامنے چارپائیوں پر بیٹھ گئے. کچھ دیر دونوں خاموش رہے, پھر: "کیسے ہو سکندر؟" ساغر نے بات شروع کی "تم نے بتایا کیوں نہیں مجھے......" سکندر اپنے خیالوں میں تھا "کیا؟" ساغر نے پوچھا "یہی...... کہ وہ تمہاری بیٹی ہے........... مجھے عشق و محبت کے پاٹ پڑھاتے رہے یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ تمہاری بیٹی ہے....... کیسے باپ ہو یار تم؟" سکندر کی آنکھیں بھر آئ تھیں, یہ بات کرتے ہوۓ "ہاں! میں نے تم سے چھپایا, کیونکہ میں چاہتا تھا کہ تم اپنے دل کی ہر بات مجھے بتاؤ تاکہ میں تم سے کوئ غلطی نا ہونے دوں. اور باپ کے ساتھ ساتھ میں ایک دوست بھی ہوں." ساغر نے وضاحت کی "اور جب سب کچھ جان گئے تھے تب کیوں نا بتایا. بتایا بھی تو کیا بتایا, کر کے دکھایا, وقت بھی نا چھوڑا کہ بیٹھ کر مجھے تھوڑا سمجھا سکو. اس کی وجہ سے تین دن میں بخار میں رہا, تم نے تو فون تک نا کیا" سکندر اپنے جذباتوں میں محو شکایتوں کی انبار لگاۓ جا رہا تھا "سوچا تھا کہ شاہینہ نے تمہیں بتادیا ہوگا کہ میں ہی اس باپ ہوں. پھر سوچا کہ تمہیں اکیلے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ تم خود کو سمجھا سکو." ساغر نے پھر سے وضاحت کی "ایک بات بتاؤں؟؟؟ مجھے خلا کا احساس ہونے لگا ہے. میں پچھلے تین دنوں سے یہ محسوس کررہا ہوں." یہ کہتے ہوۓ سکندر آنکھوں میں خوف و پریشانی ظاہر ہونے لگی تھی "فکر مت کرو اس کا علاج میں لے کر آیا ہوں؟" ساغر اطمینان سے بولا. "کیا ہے اس کا علاج؟" سکندر پرتجسس ہو گیا "اگر تم ٹھیک سمجھو تو میں ابھی تمہارے ابو سے رشتے کی بات کرنے آیا ہوں" ساغر کا بس اتنا کہنا تھا کہ سکندر بڑی بڑی آنکھیں کیۓ اسے دیکھنے لگا. وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا لیکن ساغر محسوس کر چکا تھا کہ وہ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا. "تم چاہتے ہو یہ سب؟" سکندر نے پوچھا "میں تو بہت پہلے سے چاہتا تھا........ کیا کہتے ہو بات کردوں آج؟" ساغر بولا "جب مرضی بات کرو....... بس میرے سامنے مت کرنا" سکندر کے لہجے میں شرمیلا پن تھا "یہ شرمانے والا کام نا لڑکیوں کا ہوتا ہے. تم کیوں شرماتے ہو؟" "شرمانا کیا....... بس مجھے اچھا نہیں لگتا" سکندر نے صفائ دی "اور ہاں! ایک بات بتانا تو بھول گیا..... ظاہر اور اس کی پوری ٹیم گرفتار ہو چکی ہے." ساغر نے خوشخبری سنا دی "ارے واہ!.......شکر ہے پکڑا گیا" سکندر نے رد عمل دیا اس کے بعد ساغر کچھ دیر سنجیدگی سے سکندر کی طرف تکتا رہا پھر اچانک سے بولا, "تم نہیں جانتے کہ تم نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے. میری کل کائنات میری بچی میں ہی بستی ہے. تم نے میری بچی کو بچا کر میری جان کو اپنا مقروض کر دیا ہے." ساغر کی آنکھیں بھر آئ تھیں "نہیں دوست! ایسا کچھ نہیں ہے. میں نے کسی پر کوئ احسان نہیں کیا. میں نے وہ کیا جو مجھے کرنا چاہیۓ تھا اور جو مجھ پر فرض تھا." سکندر نے صاف گوئ سے جواب دیا "تم نے اپنی جان خطرے میں ڈالی. تمہیں اس کے لئے بھاری قیمت چکانا پڑی...." "ہاں! میری چار نمازیں قضا ہوگئیں." سکندر نے ساغر کی بات کاٹ دی ساغر یک دم خاموش ہو گیا, کچھ دیر ضبط کے ساتھ سکندر کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں. ساغر نے سکندر کو جلدی سے گلے لگا لیا, اور آنسوؤں کو بہنے دیا. "بہت بہت شکریہ دوست! تم نے سچ میں مجھ پر احسان کیا ہے." سکندر نے جب روتی آواز سنی تو فوراً بولا, "تو رو رہا ہے" پیچھے ہٹا اور ساغر کے آنسو پونچھتے ہوۓ, "یہ کیا بات ہوئ دوست؟ اس میں رونے والی کون سی بات تھی؟" ساغر نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سکندر کے چہرے کو تھاما اور بولا, "میں تمہیں بہت ہی کمزور اور نازک اندام سمجھتا تھا, اس لئے میں ڈرتا تھا کہ کوئ مصیبت تم تک نا پہنچے, مگر میں غلط تھا. تم واقعی ایک پر عزم لڑکے ہو. بالکل بھی نہیں گھبراتے......" "میں یہ سب کچھ خدا کی مدد کی وجہ سے ہی کر پایا, ورنہ مجھ میں کوئ ہمت تھی ہی نہیں" سکندر نے بات کاٹی ساغر پیچھے کو ہٹا, "ہاں یہ بات بھی ٹھیک ہے, خدا کی مدد کے بغیر فتح کا کوئ تصور نہیں." پھر سکندر کے سر پر مشفقانہ ہاتھ پھیرتا رہا, "مجھے اب بتاؤ کہ تمہارے والد سے کب بات کروں؟" ساغر پھر سے پوچھنے لگا "جب دل چاہے بات کرو, لیکن میرے سامنے نہیں" سکندر شرمانے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ بولا "اچھا تو پھر چلتا ہوں, خدا حافظ!" ساغر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولا "کہاں.....؟ ابھی بیٹھو, کھانا آنے والا ہے" سکندر بھی اپنی جگہ سے اٹھنے لگا ساغر دروازے کی جانب مڑا پھر سکندر کی بات سن کر رکا اور پیچھے مڑ کے بولا,"نہیں دوست! پھر کبھی, اب چلتا ہوں میں. ایک ضروری کام سے جانا ہے اور وقت ہونے لگا ہے" "کیا دوست! ابھی تک تو پر سکون بیٹھے رہے, تشریف اٹھاتے ہی کام پڑ گیا؟؟؟" سکندر نے شکایت کرنے لگا, لہجہ تمسخرانہ تھا "ضد مت کرو, پھر کبھی, جب بھی آؤں گا ضرور کھا کے جاؤں گا"ساغر تھوڑا آگے جاتے ہوۓ سکندر کو جواب دینے کے لئے رکا "میں ضد کر رہا ہوں؟؟؟" سکندر نے حیرت سے دیکھا, تھوڑا توقف کیا "تم یہاں بیٹھو. میں کھانا لانے جا رہا ہوں مجھے اور کچھ نہیں سننا" یہ کہتے ہوۓ سکندر بیٹھک کے دروازے (جو گھر میں اندر کی طرف کھلتا ہے) کی طرف لپکا اور دروازہ کھولنے لگا "پتا ہے, اتنے نخرے میری بیوی بھی نہیں کرتی تھی." ساغر نے طنزاً کہا بس اتنا کہنا تھا کہ سکندر کے قدم رک گئے اور وہ دروازے کے درمیان سے ہی واپس مڑا "اچھا ٹھیک ہے جاؤ, ٹائم سے......... کھسکو" سکندر جھنجلا کر بولا "اب آۓ لائن پر" ساغر ہنستے ہوۓ بولا اور باہر نکل گیا سکندر بیٹھک کے دروازے (جو باہر کی طرف کھلتا تھا) پر آیا اور ساغر کو جاتا دیکھتا رہا. پھر دروازہ بند کیا, ٹھنڈی سانس لی اور دھڑام سے پلنگ پر جا لیٹا اور آنکھیں بند کئے اللہ کا شکر ادا کرنے لگا...............

 جاری ہے...........

 بقلم:
 شاہ آتش

خلاباز (قسط نمبر 10)

0 Comments




 قسط نمبر10.........

         سکندر ہکا بکا کار کو جاتے دیکھتا رہا اور ششد رہ گیا, اس کے تو اوسان ہی جاتے رہے کک....... کہ شاہینہ ساغر کی بیٹی ہے........ کچھ دیر تو سکندر نڈھال سا شریر لئے وہیں اسی کیفیت میں کھڑا رہا. اتنے میں قیصر اور راشد وہیں پہنچ آۓ. اسے رکا دیکھ تو انہوں نے بھی بریک لگائ. "کیا ہوا؟ کیوں رکے ہو؟" "کچھ نہیں یار!" سکندر کا لہجہ اب بھی پریشان سا تھا "شاہینہ کے پاپا مل گئے تمہیں؟" راشد نے پوچھا, جواباً سکندر نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا. "یار! میں نے کہا تھا, تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے, تم میرے ساتھ آ جاؤ. اب تم میرے پیچھے بیٹھو اور......راشد تم! (راشد سے مخاطب ہوتے ہوۓ) سکندر کے موٹرسائیکل پر آجاؤ." قیصر سکندر کی اکھڑی کیفیت کو بھابپتے ہوۓ بولا چنانچہ سکندر قیصر کے پیچھے بیٹھ رہا اور راشد سکند کا موٹر سائیکل لے کر گھر کی طرف روانہ ہوۓ. راستے میں قیصر نے فون کر کے سکندر کے والد کو اطلاع کردی, وہ بھی تلاش چھوڑ کر گھر آ گئے. سکندر کی والدہ بیٹے کے پاس قطب ہو گئیں, والد نے ڈاکٹر کو بلایا. صفائ کی بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ گہری چوٹیں نہیں ہیں بس خون زیادہ بہہ گیا ہے. زخموں پر ملمع آ چکا ہے. اب تو اسے پٹی کی ضرورت نہیں ہے, میں ایک کریم لکھ دیتا ہوں وہ لگاتے رہیۓ گا. جیسا کہ ڈاکٹر نے بتایا زخم گہرے نہیں تھے. مگر سکندر تیز بخار کا شکار ہو چکا تھا. سب سمجھتے تھے کہ وہ بخار ان زخموں اور حادثے کے جوش کی وجہ سے ہے مگر یہ تو بس سکندر ہی جانتا تھا کہ یہ بخار اس غیر متوقع خبر کی ہے جو سکندر کو جنگل سے باہر نکلتے ہی ملی. سکندر مسلسل تذبذب کا شکار ہوتا جارہا تھا, اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ ساغر نے اس سے یہ بات چھپائ کیوں. اور وہ اپنی ہی بیٹی کے متعلق یہ سب باتیں کیسے برداشت کرتا رہا. ان سب کے باوجود ایک لحاظ سے مطمئن تھا کہ ساغر سکندر کے حقیقی جذبات کو جانتا تھا. جو کہ نہایت ہی پاکیزہ اور مقدس تھے. سکندر سارا دن بس یونہی بخار میں مبتلا پڑا رہتا اور شاہینہ اور ساغر کے متعلق سوچتا رہتا. اسے ہر وقت ساغر کے فون کی یا اس کے آنے کی امید لگی رہتی تھی, دوسری جانب اس میں اب ساغر سے بات کرنے کا, ملاقات کرنے کا حوصلہ نہیں رہا تھا. سکندر تو جیسے کسی کشمکش میں ہی پھنس گیا تھا, اس کے لئے تو یہ فیصلہ بھی کرنا مشکل ہو چکا تھا کہ ساغر کے ملنے کا انتظار کرے یا اس قسم کی کوئ بھی امید نا رکھے. اسی کشمکش کے عالم میں سکندر کا دل اس قدر غمزدہ ہو چکا تھا کہ اسے ہمیشہ اپنی سانسیں بے ترتیب لگنے لگتی تھیں. اسی کیفیت میں سکندر کو لگا کہ وہ اب فضا سے خلا میں داخل ہو رہا ہے, اور سانسوں کی بے ترتیبی اسی کی علامت ہے. سکندر کو مسلسل یوں لگ رہا تھا کہ وہ بنا حرکت کئے اڑ رہا ہے, حتی کہ اسے اب اپنے پر ہلانے کی بھی ضرورت نہیں. ادھر شاہینہ بھی بے حال سی رہنے لگی تھی. سارا دن کمرے میں ہی گزار دیتی اور خاموش پڑی رہتی. گھر اس کے اور اس کے والد کے علاوہ اور تھا ہی کون, چنانچہ گھر کے تمام کام کاج اسی کو ہی کرنے پڑتے, وہ بس چند ضروری کام کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں اداس ہوۓ بیٹھی رہتی. شاہینہ کی ساری فکر, ساری اداسی سکندر کی صحت کو لے کر تھی کیونکہ جب سے وہ اپنے گھر گیا تھا اس کی خبر ملنا ناممکن کام ہو چکا تھا. اوپر اس کی بڑھتی گھبراہٹ اسے سکندر کی بگڑتی صحت کا اشارہ کرتی تھی. ساغر بھی زیادہ وقت گھر سے باہر لگاتا, رات کو واپس آتا اور فوراً سو جاتا. شاہینہ کی سادگی اپنی جگہ تھی, وہ ساغر سے ہچکچاتی پھرتی تھی جیسے اس نے کوئ جرم کیا ہو اور رنگے ہاتھوں پکڑی گئ ہو. تین دن اسی طرح گزر چکے تھے. چوتھا دن جاری ہو چکا تھا. ساغر اس روز دوپہر کو ہی واپس آگیا اور آتے ہی شاہینہ کے پاس جا بیٹھا. "السلام علیکم! پاپا!" شاہینہ سر کا ڈوپٹہ جوڑتے ہوۓ ادب سے بولی "وعلیکم السلام! کیسی ہو بیٹا؟" ساغر دریافت کرنے لگا "بہت اچھی ہوں پاپا!" شاہینہ لاڈلے انداز میں شرماتے ہوۓ بولی "وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ میری گڑیا بہت اچھی ہے اور بہت پیاری بھی" کسی معصوم بچے کی طرح چمکارتے ہوۓ ساغر بول رہا تھا, "مجھے طبیعت کا حال سناؤ" اب بات مکمل کر دی "طبیعت بھی ٹھیک ہے پاپا" شاہینہ شائستگی سے بولی "اچھا..؟ مجھے تو نہیں لگتا. اس حادثے کے بعد میں تمہیں آج دیکھ رہا ہوں مسکراتے ہوۓ. ٹھیک ہے میں نے تمہیں زیادہ وقت گھر اکیلا رکھا, لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا. کئ بار مجھے اس طرح کام پڑے, اور ہر بار ایسے دیر ہوئ. پہلے تو تم اتنی کبھی نا گھبرائ" ساغر مسلسل بولتا گیا, مگر شاہینہ نے کوئ جواب نا دیا. وہ چپ چاپ نظریں جھکائ بیٹھی رہی "پاپا!" نئ بات شروع کرنے کے لئے مخاطب کیا "ہنہ!" "ایک بات پوچھوں؟" "ہاں پوچھو بیٹا" "وہ..... پاپا! آپ سکندر کو پہلے سے جانتے تھے؟ مطلب...... میں نے اسے نہیں بتایا تھا کہ یہ کار میرے پاپا کی رکی ہے, وہ اپنے آپ ہی رکا پھر فوراً آپ سے ملنے چلا گیا اور کچھ باتیں بھی کی. اس لئے تھوڑی کنفیوز تھی پاپا!" شاہینہ کے لہجے میں شائستگی تھی "ہاں! وہ میرا سب سے بہترین دوست ہے. وہ تب سے دوست ہے جب وہ پانچ سال کا تھا" یہ سنتے ہی شاہینہ اندر سے ایک عجیب سی حیران کن طور پر خوشی پھوٹی. وہ مسکرائ تو نا تھی مگر اس کے چہرے کی رونق واپس آ چکی تھی جو ساغر نے بھی محسوس کی. "ان کی کوئ خبر ہے؟ کیسے ہیں وہ؟" شاہینہ فکرمندی چھپاتے ہوۓ دریافت کرنے لگی "نہیں میں نے اس سے رابطہ نہیں کیا,..... کسی وجہ سے. اب فارغ ہوں سوچتا ہوں کل جاؤں اس کا حال پوچھ آؤں" "جی پاپا!" شاہینہ سے سراہا "ویسے تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے. وہ ٹھیک ہوگا ان شاءاللہ" "ان شاءاللہ" تھوڑا توقف کیا پھر بولی "میری وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئ ہے, بس اس وجہ سے میں فکر مند تھی." ایک بار پھر توقف کیا, "اس طرح وہ مر بھی سکتا تھا, لیکن پھر بھی اس نے میری جان اور حرمت دونوں کو بچایا, اس طرح وہ محسن ہوا نا, پاپا! اور میری جان اس کی مقروض ہوئ نا پاپا!" اب بات مکمل کردی اور لہجے میں سنجیدگی اور شائستگی ٹپکتی تھی ساغر کچھ دیر تو خاموش بیٹھا رہا پھر کچھ سوچنے کے بعد بولا, "میں سوچتا تھا کہ میرے ساتھ ایک ننھی سے گڑیا رہتی ہے, مگر یہ اب سمجھ میں آیا کہ وہ گڑیا اب بڑی ہو گئ ہے اور سمجھداروں والی باتیں کرنے لگی ہے. " ساغر شاہینہ کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور شاہینہ نے مسکراتے ہوۓ سر جھکا دیا "میں کچھ دنوں سے کچھ سوچ رہا ہوں, مگر سمجھ نہیں آتی تم سے کیسے کہوں؟ تمہاری ماں اگر آج زندہ ہوتی تو وہ تم سے کہتی" ساغر اب تذبذب کا مظاہرہ کرنے لگا تھا "کیا ہوا؟ خیریت تو ہے نا پاپا؟" شاہینہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی "میں نے فیصلہ کیا تھا کہ تمہارا نکاح کرا دوں ...... سکندر کے ساتھ....... تمہیں کوئ اعتراض تو نہیں ہوگا نا.....؟" ساغر نے آخر ہمت کر کے پوچھ لیا شاہینہ کا حیرانی سے اٹھا سر شرمیلے پن کی وجہ سے جھک گیا. کچھ دیر خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھی رہی. اچانک آنسو کا ایک قطرہ شاہینہ کی جھولی میں آ گرا. "ارے بیٹا رو کیوں رہی ہو؟" ساغر بے چینی سے پوچھنے لگا, "رو کیوں رہی ہو؟ اگر متفق نہیں ہو تو فیصلے بدلے بھی جاسکتے ہیں........." بس اتنا کہنا تھا کہ شاہینہ جھٹ سے بولی "نہیں پاپا...... وہ بات نہیں" "تو کیا بات ہے پھر؟" شاہینہ کچھ جھجھکتی رہی پھر بولی, "میں آپ کو چھوڑنا نہیں چاہتی" یہ سنتے ہی ساغر دھیمی ہنسی ہنسا, "او میری بھولی بیٹی! یہ کیا بات ہوئ؟ یہ تو ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے. اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ ہم بس تھوڑا دور ہو جائیں گے لیکن چھوڑ تھوڑی دیں گے ایک دوسرے کو......... اب آنسو پونچھو اپنے, آنسو پونچھو....شاباش." شاہینہ نے بھی آنسو پونچھ لئے اور چپ چاپ بیٹھی رہی. "یہ کیا؟ تم اب بھی اداس بیٹھی ہو؟ میری شاہینہ ایسی تو نہیں ہے, مجھے پرانی والی ہنسنے مسکرانے والی شاہینہ چاہیۓ." یہ سن کر شاہینہ بھی تھوڑا مسکرا دی. "اور...... ویسے بھی, آج کی جدید ٹیکنالوجی نے تو ہمیں جوڑ کر رکھا ہوا ہے. تم نے پڑھا ہے نا کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے, اب بیٹا ایک گاؤں کے لوگ کتنے دور ہوتے ہونگے ایک دوسرے سے؟" ساغر اب لاجکلی سمجھانے لگا یہ سن کر شاہینہ مزید مسکرا دی پھر معصومیت سے بولی, "ایک بات کہوں پاپا؟" "ہاں کہو بیٹا" "پاپا! آپ گھر والے لیکچر دیا کریں. کالج والے لیکچر گھر میں ملنے لگے تو کالج جانے کا فائدہ؟" نہایت معصومیت شاہینہ ہنستے ہوۓ بول رہی تھی یہ سنتے ہی ساغر کی بے ساختہ ہنسی نکل گئ, "یہ ہوئ نا بات! ایسے ہمیشہ خوش رہا کرو. اللہ تمہیں خوش رکھے" "آمین" شاہینہ بولی "اب جتنا جلدی ہو سکے اس فیصلے کے بارے میں بتانا, مجھے انتظار رہے گا" ساغر نے پھر سے یاد دلایا "پاپا! مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے." شاہینہ سر جھکاۓ ہاتھ ڈوپٹے کا ایک کونا مٹھی بھینچتے ہوۓ بول رہی تھی "بیٹا! میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے دل کی بتاؤ. ابھی ضروری نہیں ہے, بعد میں بھی بتاسکتی ہو." شاہینہ کچھ بولنے کے لئے منہ کھولتی پھر ہچکچاہٹ کے باعث کچھ بول نا پاتی, ذرا سا سر اٹھاتی پھر جھکا لیتی, آخر ڈوپٹے میں اپنی مسکراہٹ و شرمیلا پن چھپاۓ وہ بولی, "مم.... میں راضی ہوں پاپا!" اور کہتے ہی اٹھی شرماتی ہوئ دبے پاؤں دوسرے کمرے کو بھگ گئ." ساغر بھی اپنی بیٹی میں اس قدر حیا پر رشک کرنے لگا اور دیوار سے سر ٹیکے اس کی معصومیت کو دیکھے دبی دبی ہنسی ہنسنے لگا تھا.................

 جاری ہے...........
 
بقلم:
 شاہ آتش

خلاباز (قسط نمبر 9)

0 Comments




 قسط نمبر 9.........

         شاہینہ سکندر کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہی تھی اور سکندر نے فوراً چھلانگ لگائ اور....... دھڑام سے کنٹینر سے باہر زمین پر آ گیا. رفتار کم ہونے کی باعث گرنے سے بچ گیا. شاہینہ کا وزن بھی تو ساتھ تھا اور اوپر زخمی بھی تو تھا, سو گرتے گرتے سنبھلا. نیچے اترتے ہی فوراً دونوں بھاگے اور درختوں کی اوٹ میں چھپ گۓ, کیونکہ ڈرائیور اور ظاہر خان انہیں آئینہ کی مدد سے دیکھ سکتے تھے. ادھر کنٹینر میں ظاہر خان سکون کی نیند سویا ہوا تھا ڈرائیور ڈرائیونگ کرتے کرتے اونگھ رہا تھا. اس لئے سکندر اور شاہینہ کے یوں نکل جانے کی انہیں خبر ہی نا ہو سکی. درختوں کی اوٹ میں اوجھل سکندر اور شاہینہ پر سرخ بیک لائٹ کی شعاعیں پڑ رہی تھیں. کنٹینر دھیرے دھیرے دور جا رہا تھا. دونوں کنٹینر پر نظریں ٹکاۓ اسے جاتا دیکھ رہے تھے. اچانک دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا. شاہینہ کی تو چیخ نکل گئ جب اس نے سرخ مدہم روشنی میں سکندر کو دیکھ پائ. سر پر مختلف چوٹیں اور ان سے بہتے خون سے پورا چہرا, گردن اور شرٹ کا کچھ حصہ لت پت تھا. اور یہی خون تھا جس کی وجہ سے سکندر کی آنکھیں چپک گئیں تھی دفعتاً جلن ہونے لگی تھی. "کیا ہوا؟ شاہینہ!" سکندر بدحواس ہوتی شاہینہ سے حیرانی سے پوچھ رہا تھا "تت..... تت...... تمہارا چہرا!" شاہینہ مکمل طور پر حواس باختہ ہو چکی تھی اور قدرے ڈری ڈری سی لگ رہی تھی "کیا ہوا میرے چہرے کو؟" یہ کہتے ہوۓ سکندر نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے گالوں پر رکھے اور....... اپنے چہرے پر ایک الگ اور منفرد سی تہہ محسوس کی. پھر پورے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو معلوم ہوا کہ کہیں کہیں یہ تہہ نہیں ہے, اسی طرح بال بھی کہیں کہیں سے اکڑے ہوۓ ملے. تب سمجھ میں آیا کہ خون بہہ کر لوتھڑا بن کر چمٹ چکا ہے. اتنے تک تو وہ مدھم ہوتی روشنی ختم ہو چکی تھی. پھر سے بھیانک سا اندھیرا ان کو چاروں طرف سے گھیر چکا تھا. شاہینہ اب بھی ڈری ڈری سی معلوم ہوتی تھی اور سکندر اپنے چہرے کو ہاتھ سے رگڑ رگڑ کر وہ خون ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا. ایک نظر پھر راستے کی جانب دوڑائ تو کنٹینر کی سرخ روشنی کسی دیے کی لاٹ کی سی معلوم ہوتی تھیں. کچھ دیر یوں ہی دونوں سہمے سہمے بیٹھے رہے. دفعتاً اٹھ کھڑے ہوۓ, سڑک کے درمیان آ رکے, کنٹینر کی دور سے سنائ دینے والی آواز اور موم بتی کے شعلے کی سی روشنی سب غائب ہو چکے تھے. "اب کس طرف کو جائیں؟ راستہ تو نہیں آتا نا..... ہمیں؟" شاہینہ گھبرائ ہوئ پوچھ رہی تھی. "جس جانب سے آ رہے تھے......" سکندر نے اطمینان سے جواب دیا "اور آگے کا راستہ.....؟" شاہینہ ارد گرد کے مناظر سے خوف زدہ دائیں بائیں گھومتی ہوئ پوچھ رہی تھی "کنٹینر کے پہئیوں کے نشان ہیں نا....." اک اور طمانیت بھرا جواب سکندر کی جانب سے "چلو چلیں یہاں سے" ڈرے ہوۓ لہجے میں شاہینہ یہ کہتی ہوئ چہل قدمی کرتے آگے بڑھتی گئ. ڈر کے مارے اسے اندازہ ہی نا ہوا کہ وہ سکندر کو بھی پیچھے چھوڑ کر آگے نکلی جارہی ہے. اچانک اسے سکندر کے ہنسنے کی آواز آئ. وہ رکی پیچھے مڑ کر تو دیکھتی ہے کہ سکندر تو کافی پیچھے کھڑا ہے. "کہاں بھاگے جا رہی ہو؟" سکندر ہنستے ہوۓ بولا "چلو یہاں سے مجھے ڈر لگ رہا ہے" شاہینہ ڈرے لہجے میں کہہ رہی تھی. "یوں بھاگنے سے کیا ڈر ختم ہوجاتا ہے؟" سکندر کے لہجے میں اب بھی مزاح تھا اور وہ شاہینہ کی جانب بڑھ رہا تھا, " اور کیا جنگل بھی ختم ہو جاۓ گا؟" سکندر پھر بولا "پر مجھے ڈر لگ رہا ہے" شاہینہ نے اصرار کیا "ہاں تو ڈر, ساتھ چلنے سے ختم ہوگا نا" جواباً سکندر نے بھی اصرار کیا "تو چلیں نا" شاہینہ نے پھر اصرار کر دیا اس کے بعد دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے اور ایک طویل فاصلہ طے کر گئے. اس دوران دونوں میں بالکل خاموشی رہی, کسی نے بھی زبان سے ایک حرف تک ادا نا کیا. رات کے اس بھیانک سناٹے میں انہیں اپنے قدموں کی آواز بھی خوفزدہ کرتی رہی. شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں سہمے سہمے خاموش چلتے رہے. "تھک گئ؟" اچانک سکندر بولا "نہیں! میں ٹھیک ہوں" شاہینہ ہانپتے ہوۓ بولی. "تمہاری آواز سے تو نہیں لگتا. آؤ بیٹھ جاتے ہیں. کچھ دیر آرام کے بعد پھر روانہ ہولیں گے." یہ کہتے ہوۓ سکندر سڑکے کے کنارے کی جانب مڑا, شاہینہ بھی ساتھ ہولی سڑک کے کنارے پر ایک درخت کے کٹے ہوۓ تنے پر جو تقریباً ہاتھ کی لمبائ کے برابر ہی اونچا ہوگا شاہینہ بیٹھ رہی اور سکندر ایک بڑا سا پتھر درخت کے پاس کھسکا کر اس پر بیٹھنے کے لئے جھکا اچانک لڑکھڑا گیا اور دھڑام سے جا بیٹھا. پھر کراہتے ہوۓ دونوں ہاتھ پتھر پر رکھے ذرا سا زور لگایا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھ گیا. "کیا ہوا؟ زخم درد کر رہے ہیں آپ کے؟" شاہینہ نے فکرمندی سے پوچھا "ہاں! تھوڑا تھوڑا. فکر مت کرو ٹھیک ہوں میں." پہلے پہل تو سکندر کراہا پھر لہجہ صاف ہوا اس کے بعد وہاں پر مکمل خاموشی چھا گئ. دونوں بالکل خاموش اپنی جگہ پر بیٹھے رہے. کچھ دیر اسی طرح خاموشی کے بعد: "اتنی خاموش کیوں ہو؟" سکندر نے یونہی پوچھ لیا, "کن سوچوں میں گم ہو؟" "کچھ نہیں بس......" نفی میں سر ہلاتے ہوۓ وہ بولی, تھوڑا توقف کیا, " کہتے ہیں پردے سے عورت, اردگرد کی اٹھتی ہوئ بری نظرون سے بچ جاتی ہے........ میں نے تو خود کو باحیا رکھنے میں کوئ کسر اٹھا نا رکھی. پھر اس کی بری نظر کی زد میں, میں کیوں آئ؟" شاہینہ متذبذب لہجے میں پوچھ رہی تھی. "تم نے ایک لفظ سنا ہو گا 'آزمائش'...... یہ وہی ہے. انسان جس چیز سے زیادہ قربت اختیار کرے, خدا اسی چیز میں انسان کو زیادہ آزماتا ہے, کہ اس آزمائش میں انسان کیا کرتا ہے. یہ آزمائش ہے تم پر........ اور..... اور یہ دیکھو کہ خدا نے ساتھ بھی تو دیا......." "ہاں! مجھے بچا لیا آپ نے" شاہینہ نے سکندر کی بات کاٹتے ہوۓ کہا "میں تو بس ایک وسیلہ تھا, بچایا تو اسی نے ہے" تھوڑا توقف کیا اور اس دوران شاہینہ بھی خاموش رہی, " ویسے........... تمہیں پتا تھا کہ میں پیچھے پیچھے آجاؤں گا؟" سکندر نے یونہی پوچھ لیا "جیسا کہ میں نے کہا تھا, آپ کے ساتھ میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں......... ہاں! پتا تھا مجھے , لیکن میں چاہتی تھی کہ آپ میرے پیچھے نا آتے. آپ کسی مصیبت میں پڑیں مجھے گوارہ نہیں" "مجھے بھی گوارہ نہیں کہ تم پر کوئ مصیبت آۓ اور میں نا پہنچ پاؤں." سکندر اپنے اندر کہیں کھوۓ ہوۓ بے ساختہ بول رہا تھا "ہاں! کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے آپ کوئ سورما ہوں..... کہ ہر میدان میں کود پڑیں گے." شاہینہ بگڑنے لگی تھی شاید اس لئے کہ اسے قطعاً برداشت نہیں تھا کہ سکندر پر کوئ مصیبت آ برسے. "بے شک میں کوئ سورما نہیں ہوں. میں تو بس اتنا جانتا ہوں........ کہ میں سکندر ہوں اور......... تم میرا باقی کا آدھا حصہ..... میں ہر اس میدان میں کودوں گا جس میں لڑائ تمہاری خاطر ہو." سکندر کے لہجے میں آج جنون محسوس ہو رہا تھا. جو شاہینہ بھی محسوس کر رہی تھی. آج شاہینہ بھی حیران تھی کہ بھولا بھالا سکندر کیا کہہ رہا ہے. صبح کی روشنی چاروں طرف پھیلنے لگی تھی. سارا گھنا جنگل اب کم خوفناک ہونے لگا تھا. اور اس کا بھیانک سناٹا پرندوں کی چہچہاہٹ میں بدلنے لگا تھا. اسی مدھم مدھم روشنی میں سکندر شاہینہ کی نقاب میں سے دکھتی آنکھوں میں موتی جیسے آنسو کے دو قطرے دیکھ سکتا تھا. یہ آنسو شاید خوشی کے آنسو تھے جو, عموماً ہر عورت کے بہتے ہیں جب انہیں یقین ہو جاۓ کہ کوئ ان کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا. "اگر....... کوئ لڑائ ہار گئے تو.......؟" شاہینہ اپنی شہادت کی انگلی سے آنسو کے وہ قطرے بہنے سے پہلے ہی صاف کرتے ہوۓ بولی "میں کبھی جیتنے کے لئے نہیں لڑوں گا, جب بھی لڑوں گا تمہارے لئے لڑوں گا, ان شاءاللہ. اور ایسی لڑائ میں, میں کبھی شکست نہیں کھا سکتا." اس کے بعد شاہینہ بالکل خاموش ہی ہو گئ. وہ کچھ دیر مسلسل سکندر پر ٹکٹکی باندھے تکتی رہی. دفعتاً آنکھوں سے ایک بار پھر اشک رواں ہونے لگے. سکندر زور لگاتے ہوۓ کھڑا ہوا اور ساتھ ہی کراہتے ہوۓ بولا, "چلو چلتے ہیں اب! کافی روشنی ہو چکی ہے. سکندر اور شاہینہ نے اپنا سفر جاری کر دیا. "آپ کنٹینر تک پہنچے کیسے تھے اور آپ کی بائیک کہاں گئ؟ مجھے جاننا ہے سب کچھ. تفصیل سے" شاہینہ نے چلتے چلتے استفسار کیا جواباً سکندر نے آپ بیتی سنانی شروع کی. اسی طرح کہانی سنتے سناتے سفر طے ہوتا چلا گیا. کنٹینر کے پہیوں کے نشان راہنمائ کرتے چلے گئے. ایک لمبا فاصلہ طے کرنے کے بعد ان کو شور سنائ دیا جو کہ سامنے سے آرہا تھا اور رفتہ رفتہ بڑھتا جا رہا تھا. سکندر اور شاہینہ چونکے اور فوراً درختوں کی اوٹ میں ہو لئے. وہیں دیکھ کہ دور سے قیصر اور راشد جو کہ سکندر کا ہم جماعتی تھا, الگ الگ موٹر سائیکل پر آ رہے تھے. سکندر نے شکر اللہ کا ادا کیا اور راستے پر سامنے آ کھڑا ہوا. قیصر اور راشد بھی خوش ہوئے. قریب آۓ, رکے, باتیں ہوئیں. تبھی قیصر نے بتایا سکندر کے والد اور شاہینہ کے والد بھی انہیں ڈھونڈ رہے ہیں. یہ لوگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب اس راستے پر آۓ تو کنٹینر کے پہیوں کے تازہ نشان ملے, سو آگے بڑھتے رہے. اور یہاں ان سے آ ملے. سکندر نے اپنا موٹر سائیکل واپس لیا اور شاہینہ کو بٹھا کر روانہ ہوگیا. ادھر قیصر اور راشد ایک موٹر سائیکل پر ہو لئے. جلد ہی سڑک پر جا چڑھے اور شہر کا رخ کیا. سامنے کار میں ساغر آتا دکھائ دیا, دور سے ہی اشارہ دیتا ہوا آیا اور قریب آ بریک لگائ. سکندر بھی اتر کر گلے جا لگا. اور شاہینہ ایک طرف موٹر سائیکل کے پاس کھڑی رہی. "کیا ہو گیا تھا دوست؟ یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟" ساغر نے تفکرانہ استفسار کیا "بس دوست! اڑتے اڑتے گرد باد میں الجھ گئے, پر اب تو نکل آۓ ہیں............ میں نے بتایا تھا نا ظاہر خان کے بارے میں" سکندر نے وضاحت کی "طبیعت کیسی ہے اب؟" ساغر نے پھر پوچھا "بہت ہی اچھی ہے الحمداللہ" سکندر نے اطمینان سے کہا " آؤ گاڑی میں بیٹھو, موٹر سائکل قیصر لے آۓ گا" "نہیں دوست! ایک امانت ذمے ہے میرے, اپنے ہاتھوں ادا کر کے میں گھر آ جاؤں گا. اکیلا ہی جاؤں تو بہتر رہے گا............... میں ٹھیک ہوں" "نہیں تم زخمی ہو گاڑی میں بیٹھو اور امانت کی فکر مت کرو, ہو جاۓ گا سب کچھ" ساغر نے حجت کی "نہیں دوست! میں خود جا کر یہ امانت ادا کرنا چاہتا ہوں. اور ٹھیک ہوں بالکل!" سکندر نے پھر سے ضد کی "ٹھیک ہے. تمہاری مرضی!" ساغر نے اثبات میں سر ہلایا اور چابی پکڑے ہاتھ سے شاہینہ کی طرف اشارہ کر کے کہا, " آجاؤ" لیکن سکندر واپس موٹرسائیکل کی جانب مڑ چکا تھا سو دیکھ نا پایا. " سکندر موٹر سائیکل پر بیٹھا اور شاہینہ سے بولا, " چلو بیٹھو! چلیں اب!" لیکن شاہینہ سکندر کے قریب سے ہوتی ہوئ گزرتی چلی گئ اور آنکھیں بڑی بڑی کئے اونچے آواز میں کھس پھسائ, " کیا کرہیں؟ یہ پاپا ہیں میرے. پکا مروائیں گے آپ" اور جا کر کار میں بیٹھی اور روانہ ہو گئ. سکندر ہکا بکا کار کو جاتے دیکھتا رہا اور ششد رہ گیا, اس کے تو اوسان ہی جاتے رہے کک....... کہ شاہینہ ساغر کی بیٹی ہے............. جاری ہے........... بقلم خود شاہ آتش

خلاباز (قسط نمبر 8)

0 Comments




 قسط نمبر 8.........

         ڈرائیور اور ظاہر نے سکندر کو اٹھا کر کسی بےجان چیز کی طرح کنٹینر میں پھینکا اور ....... دروازہ بند کرنے لگا. خدا کی قدرت کہ ان سے اس وقت دروازہ بند ہی نا ہو پا رہا تھا. رات کے اس اندھیرے میں ایک بھاری دروازہ بالکل صحیح طریقے سے بند کرنا, کوئ آسان کام نہیں تھا لیکن وہ ڈرائیور تو ان چیزوں کا عادی تھا مگر پھر بھی یہ کام اس سے نا ہو پا رہا تھا. کافی جتن کرنے کے بعد تھک ہار کر پسینے میں شرابور, اس نے فیصلہ کیا کہ, سکندر کو بھی باندھ کر رکھ دیتے ہیں اور اور دروازہ کھلا رکھنے میں کوئ مضائحکہ نہیں. آخر کار سفر کو جاری و ساری کر دیا. رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی, نجانے کتنے گھنٹے بیت چکے تھے, سکندر یوں ہی بے سدھ پڑا تھا. قریب ہی شاہینہ بھی بے ہوش کنٹینر میں ہچکولے کھا رہی تھی. قسمت دیکھو کیا کررہی تھی ان دو بالکل معصوم فرشتہ صفت لوگوں کے ساتھ. ایک سکندر, جس کی سادگی اتنی کہ آواز میں بھی بھاری پن نا تھا...... بالکل ہی نازک اندام........ ہمیشہ ہنس کر مسکرا کر بات کرنا, کوئ مخالف, کوئ فریق, کبھی کوئ بن ہی نا پایا تھا. جسمانی سرگرمی تو زندگی میں کی ہی نا تھی, ماں باپ کا لاڈلہ بیٹا........ لاڈلہ اتنا کہ اس عمر بھی کبھی کبھار محویت میں آ کر ماں کی گود میں سر رکھ کر میٹھی نیند سو جاتا تھا. آج اس لاڈلے ماں کے لعل کے ساتھ دنیا کیسے لاڈ کر رہی ہے. کبھی اس کو کسی بھاری لوہے کے ساتھ ٹکریں کھانے ہر مجبور کرتی ہے تو کبھی اس کسی وحشی کے ہاتھوں اسے زخمی کراتی ہے. ابھی تو وہ ان بلندیوں تک پہنچا ہی نا تھا جہاں اس کو ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا. خلا کا سفر بہت خطرناک ہوتا ہے سنا تھا, مگر فضا کی اڑان میں وہ ستم....... کیسے؟ اگر سکندر کے ہاں فضا کا سفر اس قدر ستم گر ہے تو خلا کا سفر کس قدر گمبھیر ہوگا؟ مگر اک بات تو طے تھی کہ اسے خلا کے سفر سے تو ہر حال گزرنا تھا. مگر سکندر کیا اسے جھیل پاۓ گا؟ کیا سکندر وہ سفر پار کر پاۓ گا؟ ساغر کے دل میں پیدا ہونے والا ڈر اب سکندر کی قسمت کا سوالیہ نشان بن چکا تھا. اور جواب کیا ہوگا؟ اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرسکتا تھا. وقت ہی تھا بہترین فیصل. ادھر شاہینہ بھی تو ایسی ہی معصوم نازک اندام فرشتہ صفت لڑکی تھی. ہمیشہ سر, نظریں جھکا کر رکھتی, آنکھیں حجاب سے اتنی نکالتی جتنی سے وہ خود دیکھ سکے. کالج میں سب لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ گپیں لگاتے مگر وہ نظریں جھکاۓ ایک طرف بیٹھی رہتی, کبھی ان کی طرف دیکھتی ہی نا تھی. اب وہ فقط ایک غیر محرم سے بات کرتی تھی جس کے لئے اس کا دل اجازت دیتا, مگر اس میں بھی حیا و حجابت کا خوب لحاظ ہوتا. نجانے ایسی باپردہ لڑکی پر ظاہر کی میلی نظر کیسے پڑ گئ اور دیکھو وہ اپنے باپ کی اکلوتی لاڈلی بیٹی یوں بےہوش پڑے ہچکولے کھا رہی ہے. خیر! قسمت اس سے بھی تو امتحان لے رہی تھی. اب کیا ہو تا ہے اس بات فیصلہ بھی تو وقت ہی کر سکتا تھا. آدھی رات سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا. رات کے اس گپ اندھیرے میں اچانک شاہینہ کو ہوش آنے لگا. تھوڑی ہل چل پیدا ہوئ. پھر کروٹ بدلتے ہوۓ اٹھنا چاہا مگر نا کر سکی. کیونکہ ظاہر خان نے تو اسے باندھ کر رکھا تھا. اپنا وجود بندھنے کی وجہ سے جب خود میں الجھن محسوس کی تو حرکات میں تیزی پیدا ہو گئ. کروٹ بدلتے بدلتے آخرکار گھٹنوں کے بل اٹھ بیٹھنے میں کامیاب ہوئ, پھر ہچکولا آیا اور ....... لڑکھڑا گئ. اپنے حال سے بےحال لڑکی اور اوپر سے اس قدر سخت اندھیرا کہ کچھ بھی دکھائ نا دیتا تھا. شاہینہ اب دعا میں خدا سے مدد کی بھیگ مانگنے لگی تھی. دعا مانگتے مانگتے بے ساختہ آنسو کا ایک قطرہ آنکھوں کی حدود کو توڑ کہ نیچے جا گرا. نجانے اس وقت نکلنے والا آنسو کا وہ قطرہ خدا کے ہاں کس قدر مقبول رہا تھا. خدا کی طرف سے مدد ہوئ, شاہینہ کا حوصلہ بڑھا. خدا کا نام لے کر ایک بار پھر کوشش کی, ایک بار پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئ, پھر ہچکولا آیا اور پھر وہ دھڑام سے جا گری. مگر اس بار کچھ مختلف تھا. اس بار شاہینہ کا سر سکندر کے سینے پر جا پڑا. شاہینہ گھبرا گئ کہ یہاں کون ہے. اتنے میں سکندر کو بھی سینے پر چوٹ کے باعث ہوش آ گیا. شاہینہ یکدم پیچھے کو ہٹی اور پیٹھ کے بل گری اور سکندر کھانستا ہوا اٹھنے لگا. مگر افسوس وہ بھی نا اٹھ سکا. سکندر نے بھی خود کو رسیوں میں جکڑا ہوا پایا. کھانسنے کے آواز جب شاہینہ تک پہنچی تو اس کے منہ سے ایک پکار نکلی "سکندر!" پھر روتی ہوئ سسکیوں کی آواز آنے لگی جو سکندر نے بھی سنی. سکندر جو رسیوں میں الجھے, خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں کسی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوۓ کروٹیں بدل رہا تھا, یک دم رک گیا. "شاہینہ!........ شکر ہے تم یہاں ہو............ رو کیوں رہی ہو؟" سکندر فکر مند ہونے لگا تھا "شکر ہے تم بھی یہاں ہو." شاہینہ روتے ہوۓ بول رہی تھی "میں بہت ڈر گئ تھی." "ڈرنے کی کیا ضرورت؟ خدا پر بھروسہ رکھو. ہم اس مصیبت سے بہت جلد نکل جائیں." سکندر تسلی دینے لگا, مگر شاہینہ برابر روۓ جا رہی تھی "مصیبت تو مجھ پر تھی, تم کیوں شریک ہوۓ اس میں؟ کیوں آۓ تم یہاں؟ واپس کیوں نا چلے گۓ؟" شاہینہ کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور اس کی آواز کنٹینر کے شور میں مزید دردناک لگ رہی تھی "کیونکہ مجھے گوارہ نہیں تھا تمہیں اکیلا چھوڑنا. اور......... جو مصیبت تم پر آنی ہے خدا کرے مجھ پر آۓ اور میری ہر خوشی تم پر قربان." سکندر کے دل میں اب ممونیت کا احساس جاگنے لگا شاہینہ نے جب یہ بات سنی تو بالکل خاموش ہی ہوگئ. کچھ دیر کےلئے شور کے علاوہ کچھ بھی سننے کو نا تھا. پھر اچانک سکندر بولا, "کیا تم بھی بندھی ہوئ ہو رسیوں سے؟" "ہاں........ پوری طرح سے" شاہینہ نے جواب دیا "میرے پاس ایک ترکیب ہے. میری طرف آؤ اور اپنے ہاتھ دو مجھے." سکندر شاہینہ کی آواز کی جانب ذرا ذرا سا رینگنے لگا "لیکن میرے ہاتھ تو پیچھے کو بندھ ہیں" شاہینہ بھی سکندر کی جانب رینگنے لگی تھی "ہاں تو میری طرف پیٹھ کر دے دو نا." سکندر بولا "اچھا!" شاہینہ اب سکندر کے قریب ہو چکی تھی. کروٹ بدل کر, اپنے بندھے ہاتھوں کو مزید پیچھے کی طرف لے گئ. ہاتھ سکندر کے بازو سے جا ٹکراۓ سکندر نے بھی شاہینہ کی مخالف سمت میں کروٹ بدلی اور اپنے ہاتھ شاہینہ کے ہاتھ تک پہنچا نے لگا. مگر شاہینہ کے ہاتھ قدرے اوپر تھے سو نا پہنچ سکتے تھے. سکندر اوپر جانب رینگنے لگا. آخر کار دونوں کے ہاتھ آمنے سامنے برابر ہوگۓ. سکندر نے شاہینہ کے ہاتھ پکڑے اور رسی کو ٹٹولنے لگا. "کیا کر رہے ہو؟" شاہینہ نے پوچھا. لہجے میں کافی اطمینان تھا "اپنی رسیاں تو نہیں کھول سکتا. لیکن تمہاری تو کھول سکتا ہوں. وہی کررہا ہوں" سکندر نے وضاحت کی "ارے واہ! آنکھوں پر پٹی ہے پھر بھی دماغ کے چراغ روشن ہیں." شاہینہ تمسخرانہ ہونے لگی "چراغ بھی ایسے روشن نہیں ہوۓ, کنٹینر سے دماغ پٹخ پٹخ کر عقل ٹھکانے لگائ ہے." سکندر نے بھی خود پر مزاق بنا کر مزید مزاح پیدا کر دیا, اور ساتھ ہی رسی کھولنے کی بھی مکمل کوشش جاری رکھے ہوۓ تھا "دماغ پٹخ کر........ کیا مطلب ہے اس کا؟ تمہارے سر پر چوٹ لگی ہے؟" شاہینہ فکر مند ہونے لگی سکندر خاموش ہو گیا. اتنے میں ہاتھ کی رسی بھی کھل گئ. شاہینہ کا ٹھنڈا سانس نکلا. پھر فوراً اٹھ بیٹھی. آنکھوں کی پٹی ہٹانے کے بعد شاہینہ نے سب سے پہلے اپنا نقاب ٹھیک کیا. جب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ یہاں بند آنکھوں جیسا گھپ اندھیرا ہے. بس کچھ فاصلے پر سرخ شعاعیں دکھائ دیتی ہیں اور ان شعاعوں کی وجہ سے زمین کی ناہمواریاں بھی. یہ شاید کنٹینر کی بیک لائٹ تھی. شاہینہ اس منظر کشی سے باہر آئ اور اپنے پاؤں کھولنے لگی. وہ اب مکمل طور پر ان رسیوں سے آزاد ہو چکی تھی. اب سکندر کے ہاتھ کھولنے لگی. دفعتاً سکندر اپنی آنکھیں کھولنے لگا اور شاہینہ سکندر کے پاؤں کھولنے لگی. "آاااا...... آآ.... اففففف" سکندر چلایا دفعتاً کراہنے لگا "کیا ہوا؟" پاؤں کی رسی کھل چکی تھی اور شاہینہ سکندر کے برابر میں آ بیٹھی تھی "پٹی چپکی ہوئ ہے آنکھوں سے, اور جلن ہو رہی ہے." سکندر نے کراہتے ہوۓ بتایا شاہینہ مزید قریب ہو گئ. اور بے حد نرمی سے ٹٹولا. پھر اپنی تھوک سے آنکھ کا چمڑا گیلا کرتی اور بے حد شائستگی سے پٹی اٹانے کی کوشش کرتی. نتیجتاً پٹی ذرا ذرا سی جدا ہونے لگی تھی. شاہینہ جو دل کی اتنے قریب ہے آج پہلو میں ہی آ بیٹھی ہے. اس قدر قریب آ بیٹھی کہ سانسوں کی گرماہٹ سکندر اپنی آنکھوں پر محسوس کر رہا تھا. اچانک سے اس گھپ اندھیرے کا ماحول بدل سا گیا. کنٹینر کا شور اب کسی بے حد دلربا سا لگ رہا تھا. کنٹینر میں ہوا کی گردش دو دلوں کو سمیٹنے لگی تھی. آج وہ سکون طاری تھا سکندر کے وجود پر جس میں دل کو آوارہ جنون لپیٹ چکا تھا. وہ اس احساس میں کھوۓ اپنے سارے درد اور آنکھوں کی جلن سب کچھ بھول چکا تھا. اتنا خوبصورت احساس آج تلک سکندر نے کبھی محسوس نا کیا تھا اور یہ احساس سکندر کی پرواز میں اب بے حد عروج لے آیا تھا. یہ احساس سکندر کی زندگی کا پہلا احساس تھا اور یہ پرواز سکندر کی زندگی کی پہلی پرواز.......... سکندر اس وقت محسوس کر سکتا تھا کہ دونوں کے وجود پر یکساں کیفیت طاری ہے. سکندر شاہینہ کی بڑھتی سانسیں سن سکتا تھا اور اس بڑھتی گرماہٹ اپنی آنکھوں پر محسوس کر سکتا تھا. کچھ دیر یونہی محویت کے بعد پٹی اتر چکی تھی. شاہینہ پیچھے ہٹ گئ. چند لمحے دونوں ساقط اپنے آپ میں ہی کھوۓ بالکل خاموش اپنی سانسوں کو ترتیب دیتے رہے اور اس قدر شور میں اپنی دھڑکنیں سنتے رہے. سکندر اب بھی آنکھیں نا کھول پا رہا تھا. تھوڑا مسلنے کے بعد آنکھوں پر سے خون کا لوتھڑا باآسانی ہٹ گیا اور آنکھیں کھل گئیں. "شاید پٹی بندھنے کی وجہ سے سر کا بہتا خون آنکھوں پر جم کر لوتھڑا بن گیا تھا" سکندر یونہی اونچی آواز میں بڑبڑایا "تمہارے سر پر چوٹ کیسے لگی؟" شاہینہ پھر سے فکر مند ہوئ "وہ......... کنٹینر پر چڑھتے ہوۓ......." تھوڑا توقف کیا " ....... خیر.........! چھوڑو." مزید توقف کیا" آؤ اب نکلیں یہاں سے." سکندر یہ کہتے ہوۓ اٹھا. شاہینہ بھی اٹھ کھڑی ہوئ, پھر دونوں چکراۓ, توازن بگڑا, ہچکولا آیا اور سکندر کنٹینر کی دیوار سے جا لگا اور سنبھل گیا. شاہینہ سکندر میں جا لگی اور وہ بھی سنبھل گئ. دونوں کا ٹکرنا تھا کہ ایک بار پھر وہ جذبات اور پھر وہ ساز رو نما ہوا. ایک بار پھر دھڑکن تیز ہو گئ جو کہ بہت ہی مفید ثابت ہوئ. سکندر اور شاہینہ دونوں ہاتھ تھامے کنٹینر کے دہانے کی جانب چلنے لگے. "اب کیا کریں؟" کنٹینر کے دہانے پر پہنچ کر شاہینہ نے پوچھا, جس کا سکندر نے کوئ جواب نا دیا کنٹینر کی رفتار کچھ خاص نہیں تھی. ظاہر سی بات ہے کہ اس قدر ناہموار راستے پر رفتار زیادہ سے زیادہ کیا ہوگی؟ بیک لائٹ کے باعث راستہ صاف دکھائ دے رہا تھا. سکندر نے جھانک کر دیکھا کہ آگے گڑھا سا آنے والا ہے. سکندر تیار ہو گیا. گڑھا قریب آ رہا تھا. جیسے ہی گڑھا قریب آیا, رفتار کم ہوئ, سکندر نے شاہینہ کو باہوں میں بھر لیا. شاہینہ سکندر کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہی تھی اور سکندر نے فوراً چھلانگ لگائ اور........... جاری ہے........... بقلم خود شاہ آتش