دوپٹہ
رقاصہ سے شریفہ تک
ہمارے قدم اچانک ہی رک سے گئے, وجود ساقط پڑ گیا۔ ہر سانس کسی کوہِ آتش فشاں کے دھماکے کے مشابہ ہوئی اور دھڑکن تو گویا کسی رزم گاہ میں آناً فاناً دوڑتے گھوڑوں کی چاپ ہی ہوگئی۔ ہمارے دل کا سماں بدلنے والے بے پناہ جذبات کو محض ایک لمحے کا دورانیہ کافی تھا۔ ایک لمحے کے اس طویل دورانیے میں ہم مسلسل ساقط ہوئے کھڑے رہے ، گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی موقوف ہوگئی ہو۔
یوں تو ہرگز نہ تھا کہ ہم انھیں جانتے ہی نا تھے اور یوں بھی نا تھا کہ انھیں اچھے سے جانتے تھے۔ اس سے قبل بھی کئی بار ان سے آمنا سامنا ہو چکا تھا۔ مگر آج یوں اچانک ہی ایک عرصے بعد سامنے آنا اور بھری محفل میں ہمارا ہاتھ پکڑ لینا…….. بخدا ہمارے لئے ناقابل بیاں لمحہ تھا۔
وہ ایک حسیں سرد رات تھی جب ہم نے پہلی بار انھیں دیکھا۔ شہر کے رئیس زادے کی شادی کے موقع پر ہمیں مدعو کیا گیا تھا۔ وہ شاید ان رئیسون کے ہاں کام کرتے تھے۔ ہم ایک طرف شال اوڑھ کے بیٹھے تھے جب ان کی نظر ہم پر پڑی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ چونک سے گئے۔ ہم ان کے چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت دیکھ سکتے تھے۔ ان کے اس طرح اچانک اور اتنی شدت سے بدلتے تاثرات کی وجہ سے ہم کہیں اور نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ وہ یوں دیکھ رہے تھے کہ مانو وہ ہمیں بہت پہلے سے جانتے ہوں, مانو وہ ہماری ہی تلاش میں تھے۔ اس تیز ٹھٹھرتی رات میں ان کے چہرے پر ہلکا سا پسینہ, ہم صاف صاف دیکھ سکتے تھے اور اتنے فاصلے کے باوجود بھی ہم ان کی تڑپ محسوس کر پا رہے تھے۔ ہم جیسوں کی زندگیوں میں جذبات کہاں ہوتے ہیں؟ اگر کوئی بھولے بھٹکے آبھی جائیں تو ہمیں ان کی عادت کہاں ہوتی ہے؟ ان کے لئے ہمارے دل جگہ نہیں بنا پاتے۔ ایسے میں اتنے شدیدجذبات, بخدا ہمارے لئے بہت پرتکلف ثابت ہوئے۔ چند ہی لمحوں بعد انہوں نے اپنی نظریں ہٹا لیں رخ پھیر گئے۔ مگر جلد ہی وہ پھر سے ہمیں دیکھنے لگے مگر پھر سے نظریں ہٹا لیں۔ کچھ ہی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا, پھر انھیں اپنے مالک کے حکم کی تکمیل کے لئے جانا پڑا, سو محفل شروع ہونے سے پہلے ہی نکل گئے۔ اس کے بعد محفل سجی, ہم نے شال اچھال پھینکی اور اپنے رقص سے محفل کو خوب جان بخشی۔ یہی تو ہمارا کام تھا، آخر کار ایک رقاصہ اسی لئے تو مدعو کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ کہیں دکھائی نہیں دیے۔
شادی کی رسمیں تمام ہونے تک, ہم نے اسی حویلی میں قیام کیا۔ روزانہ ان سے سامنا ہوتا، روزانہ ہمیں دیکھتے ہوئے وہ جذباتی ہوجاتے۔ روزانہ ہچکچاتے، ادھر ادھر دیکھتے مگر واپس مڑ کر ہماری طرف نگاہیں پھیر لیتے گویا وہ مجبور ہوجاتے ہمیں دیکھنے کو۔ ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اور ناہی ریاست بھر میں ہمارے دیوانوں کی کمی تھی۔ ہمارے لئے تو یہ قابلِ فخر بات تھی کہ مرد ہمارے دیوانے ہوں اور ہم پر مرمٹنے کو تیار ہوں مگر ہمیں جو چیز ستاتی تھی وہ ان کا رویہ تھا۔ کئی بار ہم نے انھیں آبدیدہ ہوتے دیکھا اور ہر بار ان کو کھوجاتے ہوئے دیکھا۔ایک بار ہم ہی نے پہل کر کے انھیں دور سے آداب کا اشارہ کیا۔ وہ شاید کھو چکے تھے۔ اچانک سے چونکے اور ہڑبڑا سے گئے ادھر ادھر دیکھنے لگے ، کبھی نیچے کبھی دائیں بائیں، کبھی ہماری جانب، پھر نیچے۔ آخر ہولے سے ہمیں دیکھا اور آہستہ سے آداب کہتے وہاں سے چلتے بنے۔اس دن زندگی میں پہلی بار جانا کہ شریف کیسے ہوتے ہیں؟ سب لوگ ہمیں دیکھ رہے تھے، ہمارے لئے تو فخر کی بات،مگر شاید ان کے لئے نہیں تھی۔ نجانے کیوں ہمیں لگا کہ وہ جاتے ہوئے لوگوں سے نظریں چرا رہے تھے۔
اس کے بعد وہ چند دن ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیے، آخری دن نظر آئے۔ جتنے آبدیدہ تھے اس سے کہیں زیادہ جذباتی۔ ہم واپس کو روانہ ہوئے ،ہماری امید کے برخلاف وہ ہمارے تانگے تک نہیں آئے۔
اس کے بعد ان سے کبھی سامنا نہیں ہوا اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہم انھیں بھلا پائے ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ہمیں ہماری بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ہماری سب سہیلیاں(طوائفیں) ہم پر ہنستی تھیں ، ڈانٹتی تھیں، سمجھاتی تھیں لیکن پر کچھ اثر نا ہوتا۔ دھیرے دھیرے ہمارا دل ہر مرد سے بیزار ہوتا جا رہا تھا اور کسی کے لئے رقص کرنے کو جی نہیں کرتا تھا۔ جی کرتا تھا کہ بس وہی ایک شخص ہمارے سامنے بیٹھا ہو اور ہم ان کے لئے آخری سانس تک رقص کرتی رہیں۔مگر پھر بھی یہ سب ہماری زندگی کا حصہ تھا، بے دلی سے بیزاری سے ہمیں کرنا ہوتا تھا۔
ہم اکثر اپنے رتجگوں میں سوچا کرتے تھے کہ ہمارا ان سے میل کیونکر ہو سکتاہے؟ پھر خود کو ہی ڈانٹتے کہ ” میل؟ کیا میل ؟ ہم کس میل کی بات کر رہے ہیں؟ ہم کوٹھے میں پیدا ہوئی پلی بڑھی طوائف ہیں۔ ہمارا ہر شب ایک نیا میل ہوتا ہے، ہمارا شرفاءسے کیا میل؟وہ بلا کے شریف انسان بھلا کبھی کسی کوٹھے کی جانب رخ کیوں کریں گے؟”
ہم تو وہ رقاصہ جس کے دیوانوں سے سارا جوناگڑھ بھرا پڑا تھا ،جس کی دھوم تمام چھوٹے بڑے رئیسوں سے لے کر ریاست کے نواب کے خاندان تک تھی،جو ریاست بھر سب سے مہنگی طوائف مشہور تھی۔ ریاست بھرمیں شاید ہی ایسا کوئی مے خانہ ہو جہاں کے مے کش ہر ہر گھونٹ پر ہمارا نام نا جبھتے ہوں اور شاید ہی ایسا کوئی مصور ہو جو ہماری تصویر بنانے سے محروم رہا ہو۔ یہی سب تو عروج ہوتا ہے ایک رقاصہ کا, ایک طوائف کا۔ایک طرف ہم ایک رقاصہ اپنے عروج پر تھے اور دوسری طرف ان کی شرافت اپنے عروج پر تھی۔ اس طرح پھر ان سے میل کیونکر ہو سکتا تھا؟
وقت تو خیر کبھی نہیں رکتا، وقت یہ بھی گزرتا گیا۔ بے قراری و کرب کی اذیتوں میں ہم دو ماہ کا عرصہ گزار گئے۔ جوناگڑھ کے نواب کے ہاں محفل تھی، ہر خاص و عام کے لئے دعوت عام تھی۔ ہم مصروف ِ رقص تھے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے درمیان سے وہ سامنے آئے ، جن کے ہم دو ماہ سے پاگلوں سے منتظر تھے۔ آج وہ گھڑی ملی تھی جس میں دل چاہتا تھا کہ ہم تمام زندگی جی لیں یا زندگی تمام کردیں۔ وہ گھڑی تو اب آئی تھی کہ ہم پورے دل سے رقص کریں، اور ہم نے وہی کیا۔ ہم ناچے، پورے دل سے ناچے، بے ساختہ ناچتے ناچتے ان کے قریب پہنچ گئے ، اتنا قریب کہ ان سے ٹکراجائیں۔ ہم اپنی مستی میں جھوم ہی رہے تھے کہ انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے ہمارا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔
ہمارے قدم اچانک ہی رک سے گئے, وجود ساقط پڑ گیا۔ ہر سانس کسی کوہِ آتش فشاں کے دھماکے کے مشابہ ہوئی اور دھڑکن تو گویا کسی رزم گاہ میں آناً فاناً دوڑتے گھوڑوں کی چاپ ہی ہوگئی۔ ہمارے دل کا سماں بدلنے والے بے پناہ جذبات کو محض ایک لمحے کا دورانیہ کافی تھا۔ ایک لمحے کے اس طویل دورانیے میں ہم مسلسل ساقط ہوئے کھڑے رہے ، گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی موقوف ہوگئی ہو۔
یوں تو ان کو لے کر ہزارو خواب سجائے تھے مگر آج یوں اچانک ہی ایک عرصے بعد سامنے آنا اور بھری محفل میں ہمارا ہاتھ پکڑ لینا…….. بخدا ہمارے لئے ناقابل بیاں لمحہ تھا۔
چند لمحوں بعد جب ہمارے اوسان لوٹے تو ہم نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا، مگر وہ مضبوطی سے پکڑے کھڑے تھے۔ ہم ان کے چہرے پر سختی واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ ہمیں لگا کہ مانو ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے، ہم نے بائیں ہاتھ سے تھپڑرسید کرنا چاہا مگر انہوں نے بایاں ہاتھ روک لیا اور گرفت مضبوط کر لی۔
“آپ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں ، ہم جانتے ہیں۔ ” آج پہلی بار ان کی آواز سنی ، ایک جذباتی سی آواز، ہم ٹھٹک کر رہ گئے۔ “مگر یہ دل اب مزید سہن نہیں کرسکتا۔ ہماری تڑپ نے کہیں نا کہیں آپ کو بھی تڑپایا ہے ہم جانتے ہیں، مگر اب مزید اسے لٹکائے نہیں رکھ سکتے۔” یہ کہتے ہوئے وہ ہماری چوڑیاں توڑنے لگے اور مسلسل توڑتے گئے مگر ہم تو جیسے اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔ “اب نہیں جانتے کہ ان سانسوں کا بوجھ مزید کتنا سہن کرسکتے ہیں۔ جو اندھیرا اب دکھائی دینے لگا ہے ،نہیں جانتے کہ اسے کل کا سورج مٹاپائے گا یا نہیں” ٹوٹتی چوڑیاں ہماری باہوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہتھیلیوں کو بھی چھلنی کرتی جا رہی تھیں، مگر اس کی پرواہ نا ہمیں ہوئی اور ناہی انھیں “ہمارے دل آپ کے لئے محبت بھلے ہی نا ہو، مگر اس چہرے سے نسبت کسی طور ختم نہیں ہوسکتی۔ ” وہ بلا توقف سب کہتے جا رہے تھے اور ہم بڑی حیرت سے سب سنتے جا رہے تھے۔ “یہ چہرہ ہماری دو سال سے مرحومہ بہن کاہے، جنہوں نے ہماری خاطر اپنی زندگی قربان کر دی۔ آپ ہوبہو ان کے جیسی دکھتی ہیں۔” یہ سنتے ہوئے ہمارا وجود لرز سا گیا اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے ہمارادایاں ہاتھ اوپر اٹھایا۔ ہم نے دیکھا کہ ہاتھ خون آلود ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ ہماری ہتھیلی کے اوپر لے جا کر زور سے مٹھی بند کی۔ ان کی مٹھی سے سارا خون رستاہوا ہماری ہتھیلی پر گرنے لگا۔ “اب آپ ہی ہماری بہن ہیں، ہماری نفیسہ ہیں۔ ہماری غیرت کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی بہن کا چہرہ کسی رقاصہ کا وجود ہو۔” یہ کہتے ہوئے وہ انہوں نے اپنے کُرتے سے ایک دوپٹہ نکالا، ہمیں اوڑھا دیااور گویا ہوئے “یہ ہماری نفیسہ کا دوپٹہ اور ہماری عزت ہے۔” پھر اچانک سے ایک قدم پیچھے ہوئے ، ہمیں دوپٹے کے ساتھ غور سے دیکھا اور رو دیے۔ پھر ایک قدم واپس قریب آئے ، نیل بہاتی آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے گویا ہوئے “ہماری عزت اب آپ کے سپرد ہے۔ اب آپ کی مرضی ، چاہیں تو اسے اچھال پھینکیں اور رقص کرتے قدموں تلے روند ڈالیں، یا پھر ہمارا مان رکھیں اور اس دوپٹے کو چادرِ حیا بنا کر اوڑھے رکھیں۔” یہ سب کہتے ہوئے وہ الٹے قدم پیچھے ہٹے اور ہلکا سا مڑ کر پیچھے کو دیکھا۔ تبھی دو جوان انھیں پکڑ کر لے گئے، جیسے کوئی قیدی کو پکڑ کر لے جاتا ہو۔
لوگوں کے ایک جمِ غفیر نے انھیں راستہ دیا، وہ روانہ ہوئے اور ہم انھیں دیکھتے رہے۔ کچھ دور جا کر وہ رکے، دائیں بائیں کے جوانوں نے چلتے رہنے کو دھکا دیا مگر وہ رکے رہے۔ مڑ کر ہمیں دیکھا۔ نیل بہاتی آنکھوں اور آنسؤں سے تر داڑھی سے ہلکا سے مسکرائے اور کہا :
“الوداع نفیسہ!” پھر واپس مڑے اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد ہم نے جانا کہ ہمارا بالکل تر ہو چکا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کتنا روئے۔ ہم کیا سوچتے رہ گئے ، وہ کیا چاہتے رہے۔ طوائف کو اتنی عز ت کون دیتا ہے؟ اگر دے بھی دے تو بہن کون بناتا ہے؟ یہ ہم پر ذمہ داری تھی یا احسان؟ اس سوال کا جواب ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔
کچھ دیر تو سب لوگ خاموش کھڑے ہمیں دیکھتے رہے پھر دھیرے دھیرے چہ مگوئیاں شروع ہونے لگیں۔ نواب صاحب کی جانب سے حکم آیا کہ محفل ددبارہ سے شروع کی جائے۔ موسیقار نے دھن چھیڑی، گلوکار نے سُر لگائی لیکن…….. بخدا ہم سے ایک قدم بھی نا اٹھایا گیا۔ وجود میں اتنی سکت بھی نا رہی کہ دوپٹہ اتار سکیں۔ ہم دھڑام سے وہیں گر گئے، پھوٹ پھوٹ کر رو دیے، ہاتھ جوڑ لئے اور سب سے معذرت کر لی لیکن رقص نا کرسکے۔
ایک بہن کیا ہوتی ہے؟ یہ سمجھنے میں ہمیں تھوڑا تو وقت لگنا ہی تھالیکن فی الفورجو سمجھ سکے وہ اتنا کہ اب یہ سب دھندا بند کر کے ایک عزت دار خاتون بننا ہے۔ اور یہ جوناگڑھ میں تو نا ممکن تھا۔
اب تواپنے کوٹھے میں بھی دم گھٹتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار خدا یاد آئے۔ دعا کی کہ اب تو ہی نکال اس قبر سے۔ اسی دن نواب صاحب کی نیک دل مہمان ہمارے کوٹھے پرآئی اور بتایا کہ انہوں نے تمام گفتگوکا بہت قریب مشاہدہ کیا ہے۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ اپنی ولائتی موٹر گاڑی میں اپنے گھر لکھنؤ لے آئیں، اور یوں مانو کہ ہمیں گود لے لیا۔
ایک بہن کی بہنیت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمیں سیکھنے میں دس سال لگ گئے۔ اور یہ دس سال کیسے گزرے معلوم ہی نہیں ہوا۔ آج دس سال بعد ہم جوناگڑھ اپنے بھائی سے ملنے آئے۔انھیں بتانے آئے کہ حسینہ اب نفیسہ بن چکی ہے۔ انھیں دکھانے آئے کہ جو دوپٹہ آپ نے دیا تھا ابھی تک ہمارے سر پر ہے، پرانا بھی نہیں ہوا، رنگ بھی نہیں اڑا، دھاگے بھی نہیں نکلے۔
مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ ایک طوائف سے تعلق رکھنے کے جرم میں ان کے سوتیلے بھائی انھیں سزائے موت کے نام پر آج سے دس سال پہلے ہی قتل کر چکے ہیں، ہمارے یہاں سے جانے سے ٹھیک دو دن بعد۔ان کا ہم تک آنا دراصل ان کی آخری خواہش کی تکمیل تھی۔
مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ آج سے بارہ سال پہلے نفیسہ کو بھی محلے والے حسینہ حسینہ کہہ کر رسوا کیا کرتے تھے اور جب چند اوباشوں نے نفیسہ کا دوپٹہ کھینچا یہ سمجھ کر کے یہ حسینہ ہے تو بھائی دفاع کرنے آئے۔ پھر بہن نے بھائی کو پڑنے والے خنجر کا نشانہ خود کو بنا لیا۔
یہاں آکر معلوم ہوا کہ ہمارے سر پر وہی دوپٹہ ہے جو نفیسہ کے سر سے کھینچا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ختم شد٭٭٭٭٭٭٭٭
:بقلم
ؔشاہ آتش